سماج

امداد تو ٹھیک ہے، اسلام کیوں قبول کیا؟

کینیا میں اٹھارہ ماہ تک یرغمال رہنے والی اطالوی امدادی کارکن وطن واپس پہنچ گئی ہیں۔ اپنی قید کے دوران انہوں نے رضا کارانہ طور پر مذہب اسلام قبول کر لیا تھا۔

امداد تو ٹھیک ہے، اسلام کیوں قبول کیا؟
امداد تو ٹھیک ہے، اسلام کیوں قبول کیا؟ 

سِلویا رومانو کو اٹلی میں واپسی پر ایک حلقے کی جانب سے نہایت سخت جملے سننے کو مل رہے ہیں۔ رومانو کو نومبر 2018 میں شمال مشرقی کینیا سے صومالی عسکری تنظیم الشباب کے عسکریت پسندوں نے اغوا کر لیا تھا۔ وہ تب ایک اطالوی این جی او کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کر رہی تھیں۔ یہ امدادی تنظیم کینیا کے چکاما نامی گاؤں میں یتیم بچوں کا ایک مرکز چلا رہی ہے۔

Published: undefined

جب رومانو اغوا ہوئیں تو اٹلی میں صدمے اور دکھ کی ایک لہر دوڑ گئی مگر ساتھ ہی انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاست دان یہ کہتے بھی دکھائی دیے کہ رومانو کو کینیا جانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اہم اطالوی رہنماؤں کی جانب سے یہ تک کہا جاتا رہا کہ اٹلی میں لوگوں کی مدد کرنے کی بجائے وہ کینیا کیوں گئیں؟

Published: undefined

کئی سیاست دانوں نے انہیں ’توجہ کی متلاشی‘ تک قرار دیا۔ یہ بحث کافی دنوں تک جاری رہی جب کہ ساتھ ہی ساتھ کینیا میں ان کے کام سے متعلق بھی گفت و گو بھی ہوتی جاری رہی۔ مگر رفتہ رفتہ یہ تمام بحث محو ہو گئی۔

Published: undefined

مگر پچھلے ماہ رومانو کو ایک مرتبہ پھر اٹلی میں انتہائی دائیں بازو کے حلقے کی جانب سے اس وقت نئے حملوں کا سامنا کرنا پڑا، جب رومانو کی بازیابی کے ساتھ ساتھ یہ خبر بھی سامنے آئی کہ وہ اسلام قبول کر چکی ہیں۔

Published: undefined

اسلاموفوبیا اور نفرت میں اضافہ

Published: undefined

نو مئی کو اطالوی وزیراعظم نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں رومانو کی رہائی کا اعلان کیا، تو زیادہ تر اطالوی باشندوں نے اس پر زبردست جشن منایا۔ مگر ساتھ ہی یہ خبر بھی سامنےآئی کہ یرغمالی ایام میں رومانو رضاکارانہ طور پر اسلام قبول کر چکی ہیں۔ اس کے بعد یہ تمام جشن ایک نئی بحث میں تبدیل ہو گیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سِلویا رومانو نے اپنا 'اسلامی‘ نام عائشہ رکھا ہے۔

Published: undefined

روم واپسی پر رومانو ہلکے ہرے رنگ کےجلباب (ڈھیلے ڈھالے اور پورے بدن کو ڈھانپنے والے لباس جو صومالی مسلم خواتین پہنتی ہیں) میں دکھائی دیں ۔ اس کے بعد اٹلی میں دائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے میڈیا کا واحد مدعا رومانو کی تبدیلی مذہب تھا۔ ایک اطالوی اخبار کی شہ سرخی تھی، 'ہم نے ایک مسلمان خاتون کو رہا کروایا‘۔ غالباً اس سے اخبار کی مراد تھی حکومت کو فقط مسیحی اطالوی شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا ہے اور مسلمانوں کا نہیں۔

Published: undefined

ایک اور اخبار اِل گیرونالے کی شہ سرخی تھی، 'اسلامی اور خوش، سِلویا ناشکری‘۔ اس اخبار میں ایڈیٹر الساندرو سلوستی سلویا رومانا پر مزید طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ دشمن کی جہادی وردی کے ساتھ لوٹی ہیں۔ انہوں نے سلویا کے اسلام قبول کرنے کی بابت لکھا کہ یہ تو بالکل ویسا ہے جیسا کوئی یہودی اذیتی مرکز سے نازی لباس پہنے واپس لوٹے۔

Published: undefined

اٹلی میں کئی سیاست دان رومانو کے اسلام قبول کرنے کو اسلاموفوبیا کی ترویج کے ایک بہترین موقع کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ماتیو سالوینی نے اس معاملے کو تہذیبوں کے تصادم کا نام دیتے ہوئے کہا کہ مسلم دہشت گرد اس طرح اسلامی حجاب اور تبدیلی مذہب کے ذریعے یہ ثقافتی لڑائی جیت گئے۔سالوینی کے نائب الساندرو پاگونو نے تو رومانو کوایک پارلیمانی سیشن میں 'نئی دہشت گرد‘ تک قرار دیا۔

Published: undefined

دوسری جانب بعض اطالوی فیمینسٹ بھی رومانو کے 'مسلم لباس‘ کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ معروف فیمینسٹ نادیہ ریوا نے اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں لکھا، ''ہرے رنگ کے ری سائیکلنگ بیگ میں ایک مسکراتی خاتون۔‘‘ انہوں نے رومانو کے لباس کو 'مردوں کے غلبے کی علامت‘ قرار دیا۔ دوسری جانب متعدد فیمیسنٹ شخصیات نے رومانو کا دفاع کیا اور خود کو ریوا کے متنازعے بیانات سے دور رکھا۔

Published: undefined

بائیں بازو کا حلقہ رومانو کے ساتھ

Published: undefined

اٹلی میں لبرل اور بائیں بازو کے حلقے کے علی العلان رومانو پر ہونے والی تنقید کی مذمت کی ہے اور رومانو کا ساتھ دیا ہے۔ اس طبقے کی جانب سے رومانو کی وطن واپسی پر خوشی کا اظہار کیا گیا۔ لبرل اور بائیں بازو کی جانب جکھاؤ رکھنے والے میڈیا اور رہنماؤں نے رومانو کے قصے میں کہانی کی 'انسانی جہت‘ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ وہ اس قصے میں اس بات پر زور دیتے رہے کہ کس طرح رومانو اٹلی میں ایک آرام دہ زندگی چھوڑ کر افریقہ میں انسانی مدد کی نیت سے گئیں۔

Published: undefined

لبرل اخبارات میں کئی ایسی تصاویر شائع کی گئیں جب میں رومانو کینیا میں غریب بچوں کے درمیان گھری ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined