سماج

موٹروے گینگ ریپ: ایک ملزم پیش، جرم سے انکار، مرکزی ملزم کی تلاش جاری

موٹروے گینگ ریپ پر لوگوں میں مسلسل غم وغصہ ہے جبکہ پنجاب پولیس کی کارکردگی پر سوال اٹھ رہے ہیں۔

موٹروے گینگ ریپ: ایک ملزم پیش، صحت جرم سے انکار، مرکزی ملزم کی تلاش جاری
موٹروے گینگ ریپ: ایک ملزم پیش، صحت جرم سے انکار، مرکزی ملزم کی تلاش جاری 

موٹر وے گینگ ریپ کیس کی تفتیش ڈرامائی رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ پنجاب پولیس نے جس نوجوان کے اس واردات میں ملوث ہونے کا اعلان کیا تھا اس نے اتوار کو لاہور میں خود کو پولیس کے حوالے کرکے اس جرم میں ملوث ہونے سے انکار کر دیا۔

Published: undefined

اس جرم کا مرکزی ملزم عابد ابھی تک گرفتار نہیں ہوا۔ پولیس حکام نے اتوار کی شام عابد کے والد اور اس کے دو بھائیوں کو حراست میں لے لیا۔ ان سے عابد اور اس کے رابطوں کے بارے میں معلومات لی جا رہی ہیں۔

Published: undefined

10 سمتبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور کے مضافات میں فرانسیسی شہریت رکھنے والی خاتون اپنے دو چھوٹے بچوں کے ساتھ موٹروے پر سفر کر رہیں تھیں جب ان کی گاڑی میں پیٹرول ختم ہو گیا۔

Published: undefined

وہ مدد کا انتظار کر رہیں تھیں جب دو ملزمان نے گن پوائنٹ پر انہیں لوٹنے کی کوشش کی اور کھیتوں میں لے جا کر انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ گینگ ریپ کے بعد ملزمان ان کے پیسے، دیگر قیمتی چیزیں اور ان کا بینک کارڈ ساتھ لے گئے تھے۔

Published: undefined

اس سانحے کے خلاف پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاج جاری ہے ۔ مظاہرین واردات کے بعد ایک متنازعہ بیان میں بظاہر ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون پر تنقید کرنے والے سی سی پی او لاہور کے خلاف بھی سخت کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

Published: undefined

ملزم کا واردات سے انکار

Published: undefined

وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے ایک روز پہلے ہی کہا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے وقار کے فون کا جیو فینسنگ کے ذریعے پتہ چلایا ہے اور واردات کے وقت اس کا فون وہیں موجود تھا۔ ان کے بقول وقار کچھ عرصہ پہلے ہی جیل سے ضمانت پر رہا ہو کر آیا ہے۔

Published: undefined

وقار کی والدہ نے ایک بیان میں وزیراعلی پنجاب سے اپیل کی ہے کہ ان کا بیٹا اس واردات میں ملوث نہیں ہے کیونکہ اگر وہ مجرم ہوتا تو خود کو گرفتاری کے لیے پیش نہ کرتا۔

Published: undefined

لیکن تفتیش کرنے والے پولیس حکام کا اصرار ہے کہ وقار خود بھی ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث رہا ہے اور اس کے خلاف پہلے سے دو مقدمات درج ہیں۔

Published: undefined

اس کیس کی تفتیش میں شامل پنجاب کے ایک اعلی سطح کے پولیس افسر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وقار کا کہنا ہے کہ اس کے نام پر موبائل فون کی جو دو سمیں تھیں انہیں اس کا سسر اور سالا (عباس) استعمال کر رہا تھا۔ پولیس کے مطابق اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ عباس کا مرکزی ملزم عابد کے ساتھ قریبی تعلق تھا اور وہ دونوں مل کر وارداتیں کیا کرتے تھے۔ پولیس نے وقار کا ڈی این اے ٹیسٹ اور پولی گرافک ٹیسٹ کرانے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

Published: undefined

مرکزی ملزم روپوش

Published: undefined

وقار سے اب تک ملنے والی معلومات کی روشنی میں پولیس کی دو ٹیمیں ملزمان عابد اور عباس کی تلاش میں نکلی ہوئی ہیں۔ پولیس نے اتوار کی صبح مرکزی ملزم عابد کے ضلع شیخوپورہ کے ایک گاوں میں واقعہ زیر تعمیر گھر پر چھاپہ مارا لیکن وہاں اس کا کوئی رشتے دار موجود نہیں تھا۔

Published: undefined

علاقے کے لوگوں نے پولیس ٹیم کو بتایا کہ ملزم عابد اس علاقے میں کوئی چھ ماہ سے رہائش پذیر ہے۔ وہ علاقے کے لوگوں سے زیادہ میل جول نہیں رکھتا تھا اور نہ ہی اس کا ذریعہ آمدن واضح تھا۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ عابد پہلے بھی مختلف جرائم میں ملوث رہا ہے۔

Published: undefined

اس گینگ ریپ کی تفتیش کے لیے قائم پنجاب حکومت کی خصوصی کمیٹی کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق اس واردات کے مرکزی ملزم عابد کا تعلق ضلع بہاولنگر کے علاقے فورٹ عباس کے ایک گاؤں سے ہے۔ وہ بظاہر ایک عادی مجرم کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس پر قتل، اقدام قتل، زیادتی، ڈکیتی،اور چوری کے آٹھ مقدمات ہیں۔

Published: undefined

اسے جنسی جرم کے ایک کیس میں ملوث ہونے کی بنا پر دو ہزار تیرہ میں اس کے آبائی علاقے سے نکالا گیا تھا۔ ملزم عابد کے نام پر موبائل کی چار سمیں جاری ہوئی تھیں لیکن وہ انہیں بند کروا چکا ہے۔

Published: undefined

پنجاب پولیس پر تنقید

Published: undefined

سابق انسپکٹر جنرل پولیس سینٹر رانا مقبول نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کے ملزمان کو سزا دینے کے لیے محض ڈی این اے کے شواہد پر انحصار کرنا مناسب نہیں ہوگا بلکہ ملزمان کا ویڈیو بیان بھی ریکارڈ کیا جانا چاہیے جو کہ قانون شہادت کی دفعہ ایک سو چوراسی کے مطابق قابل قبول ہے۔

Published: undefined

ان کے بقول اس کے علاوہ ڈیجیٹل، الیکٹرونک اور دیگر شہادتوں کو بھی محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔ رانا مقبول کے مطابق اس کیس کا چالان احتیاط سے مکمل کیا جانا چاہیے اور عدلیہ سے یہ اپیل کی جانی چاہیے کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر اس کی سماعت کرے اور اپیلوں کی سماعت بھی جلدی ہو۔

Published: undefined

سینیٹر رانا مقبول کہتے ہیں کہ پنجاب حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس معاملے کو غیر پروفیشنل انداز میں ڈیل کر رہی ہے۔ ''مجھے آئی جی پنجاب کی یہ بات سن کر دکھ ہوا کہ پولیس کی گاڑی ملزمان کے گھر کے پاس پہنچی تو ملزم اسے دیکھ کر وہاں سے بھاگ گیا۔

Published: undefined

ملزم کی گرفتاری کے لیے اس سے بہتر حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے تھی۔ اس کے علاوہ تفتیش کے دوران سامنے آنے والی معلومات کو قبل از وقت میڈیا پر پیش کرنا بھی مناسب نہ تھا۔ اس سے کیس کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہےـ‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined