سماج

پاکستانی ٹرانس جینڈر شہریوں کو شناختی کارڈوں کا اجرا بحال

پاکستان میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی ’نادرا‘ نے ملکی ٹرانس جینڈر شہریوں کو شناختی کارڈوں کے اجرا کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا ہے۔

پاکستانی ٹرانس جینڈر شہریوں کو شناختی کارڈوں کا اجرا بحال
پاکستانی ٹرانس جینڈر شہریوں کو شناختی کارڈوں کا اجرا بحال 

نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کے حکام نے منگل چھبیس ستمبر کے روز ایک بیان میں کہا کہ ٹرانس جینڈر پاکستانیوں کو شناختی کارڈ جایی کرنے کا عمل دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ ایک اسلامی عدالت کے ایک متنازعہ فیصلے کے سبب چار ماہ تک معطل رہا تھا۔ نادرا کی طرف سے اس فیصلے کے اعلان اور ٹرانس جینڈر شہریوں سے متعلق ایک متنازعہ فیصلے پر عمل درآمد ختم کرنے کا مقصد ایسے پاکستانی باشندوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔

Published: undefined

نادرا نے مئی میں پاکستانی ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا سلسلہ اس وقت روک دیا تھا جب ملک کی وفاقی شرعی عدالت نے ایسے افراد کے بارے میں یہ فیصلہ سنایا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی جنس تبدیل نہیں کرا سکتے اور انہیں دیگر انسانوں کی طرح مساوی حقوق دینا 'اسلام کے خلاف‘ ہے۔ شرعی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ حکام 'ایکس‘ اسٹیٹس کے ساتھ ایسے شناختی کارڈ جاری کرنا بند کریں۔ 'ایکس‘ اسٹیٹس دراصل تیسری صنف کی نشاندہی کرتا ہے، یعنی ایسے انسان جو نہ مرد اور نہ ہی عورت ہوتے ہیں اور جنہیں ٹرانس جینڈر کے طور پر تیسری صنف کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

Published: undefined

شناختی کارڈ ضروری کیوں؟

پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس، طبی دیکھ بھال اور روزمرہ کی دیگر خدمات تک رسائی کے علاوہ کسی بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے بھی شناختی کارڈ کا ہونا لازمی ہے۔ تاہم ٹرانس جینڈر افراد کو شناختی کارڈوں کا اجرا روک کر انہیں معاشرے میں رہنے کے لیے درکار ان سہولیات سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم اداروں اور شخصیات کی طرف سے کافی تنقید بھی کی گئی تھی اور اس عدالتی فیصلے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔

Published: undefined

نادرا کی طرف سے ٹرانس جینڈر شہریوں کو قومی شناختی کارڈوں کا اجرا بحال کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کے معروف کارکن فرحت اللہ بابر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرعی عدالت کے فیصلے کو واپس لینے کی اپیل اس بنیاد پر کی تھی کہ اس سے ٹرانس جینڈر شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں۔ دریں اثنا نادرا حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ انہوں نے ایسے افراد کو شناختی کارڈوں کا اجرا بحال کر دیا ہے۔‘‘

Published: undefined

حکام کی طرف سے وضاحت کی گئی ہے کہ ان کی قانونی ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو اب چیلنج کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی قوانین کے تحت ایسا کوئی عدالتی فیصلہ اس وقت تک نافذالعمل نہیں ہو سکتا جب تک اس کے خلاف دائر کردہ کسی اپیل یا نظرثانی کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہ ہو جائے۔

Published: undefined

ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018ء

2018ء میں پاکستانی پارلیمان نے ٹرانس جینڈر پرسنز کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک ایکٹ منظور کیا تھا۔ ان حقوق میں ایسے شہریوں کا ان کی صنفیشناخت سے متعلق حق بھی شامل تھا۔ تاہم مسلم اکثریتی پاکستان میں بہت سے لوگ جنس، جنسیت اور ٹرانس جینڈر شہریوں کو اکثر اپنی برادری سے باہر سمجھنے کو اپنے عقیدے کا حصہ سمجھتے ہیں۔

Published: undefined

ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ ہونے والے غیر مساوی سلوک اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے نتیجے میں زیادہ تر ٹرانس جینڈر شہری اپنا پیٹ بھرنے کے لیے بھیک مانگنے اور ناچنے گانے حتیٰ کہ بہت سے جسم فروشی تک پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے حملوں کا خوف بھی رہتا ہے۔

Published: undefined

نادرا کا فیصلہ خوش آئند

نادرا کی طرف سے ٹرانس جینڈر پاکستانی شہریوں کو شناختی کارڈوں کا اجرا بحال کرنے کے فیصلے کا ملک بھر میں اس سماجی اقلیتی برادری کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔ ٹرانس رائٹس کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن نایاب علی نے اس بارے میں اپنے رد عمل میں لکھا، ''میں ٹرانس جینڈر کارکنوں کی پوری کمیونٹی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘‘

Published: undefined

نایاب علی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''آپ کی انتھک جدوجہد کے لیے آپ سب کو مبارک باد اور ان تمام اداروں کا بھی دل سے شکریہ، جنہوں نے اپنی کاوشوں سے اس پیش رفت کو ممکن بنایا۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined