سماج

توانائی کا بحران: تاریک شہر ہمارے لیے فائدہ مند کیسے؟

توانائی کے موجودہ بحران کے پیش نظر جرمنی کے سبھی شہروں نے رات کے وقت کافی لائٹیں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں رقم اور توانائی کی بچت بھی ہو گی اور ایسا کرنا انسانی صحت کے لیے بھی بہتر ہو گا۔

توانائی کا بحران: تاریک شہر ہمارے لیے فائدہ مند کیسے؟
توانائی کا بحران: تاریک شہر ہمارے لیے فائدہ مند کیسے؟ 

یہ روسی یوکرینی جنگ کے تناظر میں اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے پیدا شدہ بحران ہی کا نتیجہ ہے کہ جرمنی بھر کے شہروں نے رات کے وقت مشہور عمارات، تاریخی یادگاروں اور ٹاؤن ہالز، عجائب گھروں اور لائبریریوں جیسی عمارات کی روشنیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صرف جرمن دارالحکومت برلن میں ہی مثال کے طور پر وکٹری کالم یا فتح کے ستون اور برلن کیتھیڈرل سمیت شہر کی پہچان سمجھی جانے والی تقریباﹰ 200 عمارات غروب آفتاب کے بعد اب تاریکی میں ہی ڈوبی رہتی ہیں۔

Published: undefined

وسطی جرمنی کے شہر وائیمار نے تو اپنے پورے بلدیاتی علاقے میں توانائی کی بچت کے پروگرام پر اس سال موسم گرما کے ابتدائی مہینوں سے ہی عمل درآمد شروع کر دیا تھا۔ اس فیصلے کے تحت سڑکوں اور راہ گیروں کے لیے بنائے گئے راستوں پر لگی سٹریٹ لائٹس اب ہر شام آدھ گھنٹے کی تاخیر سے روشن کی جاتی ہیں اور ہر صبح آدھ گھنٹہ پہلے ہی بجھا دی جاتی ہیں۔

Published: undefined

اس طرز عمل کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یوں بجلی اور مالی وسائل کی بچت تو ہو گی ہی لیکن ساتھ ہی مقابلتاﹰ تاریک شہر تحفظ ماحول اور حیاتیاتی تنوع کے لیے بھی کئی حوالوں سے مثبت نتائج کا سبب بنیں گے۔

Published: undefined

لائٹیں بند کرنا فضائی آلودگی کے خلاف بھی مددگار

امریکہ میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیشنل ڈارک اسکائی ایسوسی ایشن کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں رات کے وقت آؤٹ ڈور جلائی جانے والی لائٹوں میں سے ایک تہائی کا قطعاﹰ کوئی فائدہ ہوتا ہی نہیں۔ اس تنظیم کے ماہرین کے مطابق توانائی کے موجودہ بحران اور توانائی کے ذرائع کی قیمتوں میں حالیہ بےتحاشا اضافے سے پہلے بھی سچ یہی تھا کہ غیر ضروری لائٹیں بند کر کے سالانہ تقریباﹰ تین بلین یورو (تین بلین ڈالر) کی بچت کی جا سکتی تھی۔ اس کے علاوہ اسی اقدام سے فضائی آلودگی اور زہریلی کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی لاتے ہوئے تحفظ ماحول کی کوششوں کو بھی آگے بڑھایا جا سکتا تھا اور یہ کام اب بھی کیا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

بھارتی ریاست اتر پردیش کی رانی لکشمی بائی سینٹرل زرعی یونیورسٹی سے منسلک ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلقہ امور کے ماہر پون کمار کے مطابق صرف بھارت میں ہی لائٹنگ کا حد سے زیادہ استعمال سالانہ 12 ملین ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فضا میں اخراج کی وجہ بنتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس زہریلی کاربن گیس کا یہ حجم بھارت ہی میں سال بھر کے دوران فضائی اور سمندری راستوں سے آمد و رفت کے باعث خارج ہونے والے کاربن گیسوں کے مجموعی حجم کے تقریباﹰ نصف کے برابر ہے۔

Published: undefined

روشنیوں سے آلودہ آسمان

آج کی دنیا میں 80 فیصد سے زیادہ انسان ایسے علاقوں میں رہتے ہیں، جہاں آسمان غیر ضروری روشنیوں کی وجہ سے آلودہ ہوتے ہیں۔ یورپ اور امریکہ میں تو روشنی سے آلودہ آسمان کے نیچے زندگی بسر کرنے والے انسانوں کا تناسب 99 فیصد بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کروڑوں انسانوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کے تجربے سے گزرنے کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا۔

Published: undefined

اسی طرح کے حالات کی انتہائی نوعیت کی ایک مثال سنگاپور میں بھی دیکھنے میں آتی ہے، جہاں روشنیوں کی وجہ سے راتیں اتنی منور ہوتی ہیں کہ عام شہریوں کی آنکھوں کو حقیقی تاریکی کا سامنا کرنے کے لیے باقاعدہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔

Published: undefined

ہمیں تاریکی کی ضرورت ہے

رات کے وقت کافی حد تک تاریکی صرف ماحول ہی کے لیے فائدہ مند نہیں ہوتی بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی بہت اچھی ہے۔ اب تک کیے جانے والے کئی طبی مطالعاتی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ آنکھوں کو پہنچنے والے نقصان اور مصنوعی روشنیوں کے مابین ایک باقاعدہ ربط پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انہی روشنیوں کا بے خوابی، جسمانی فربہ پن اور کئی واقعات میں ڈپریشن سے تعلق بھی ثابت ہو چکا ہے۔

Published: undefined

طبی ماہرین کے مطابق ان تمام معاملات کا تعلق میلاٹونن نامی ہارمون سے ہے، جو انسانی جسم میں اس وقت خارج ہوتا ہے، جب اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ جرمن ریسرچ سینٹر فار جیو سائنس کے ماہر کرسٹوفر کِیبا کہتے ہیں، ''جب ہمارے جسم میں یہ ہارمون پیدا نہیں ہوتا، اس وجہ سے کہ ہمارا سامنا اپنے گھر، کام کی جگہ یا کھلے آسمان کے نیچے بہت زیادہ روشنی سے رہتا ہے، تو انسانی جسم کا وہ سارا نظام مسائل کا شکار ہو جاتا ہے، جسے حیاتیاتی کلاک سسٹم کہتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

مریکہ میں 2020ء میں مکمل کی جانے والی ایک تحقیق کے نتائج کے مطابق ایسے بچے یا نوجوان جو بہت زیادہ مصنوعی روشنیوں والے علاقوں میں رہتے ہیں، انہیں نیند کم آتی ہے اور جذباتی نوعیت کے مسائل کا سامنا بھی زیادہ رہتا ہے۔ کرسٹوفر کِیبا کے مطابق، ''مصنوعی روشنیوں کا متعارف کرایا جانا ان سب سے زیادہ ڈرامائی تبدیلیوں میں سے ایک ہے، جن کی ہم انسان زمین کے کرہ حیاتی میں وجہ بنے ہیں۔‘‘

Published: undefined

اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ سائنس دانوں کے مطابق زمین پر انسانی طرز زندگی کے باعث کرہ ارض ہر سال دو فیصد کی شرح سے روشن تر ہوتا جا رہا ہے۔

Published: undefined

تاریکی تو جانوروں اور پودوں کو بھی پسند ہے

زمین پر حیاتیاتی اقسام میں سے انسانوں کے علاوہ بھی کئی انواع ایسی ہیں، جنہیں خود کو رات کے وقت مصنوعی روشنی کا عادی بنانے کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

Published: undefined

مثلاﹰ کورلز یا مونگے کی چٹانیں اس وجہ سے حسب معمول اپنی افزائش نسل نہیں کر پاتیں۔ ہجرت کرنے والے پرندوں کی اسی وجہ سے سفر کی سمت کا تعین کرنے والی حس متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر اسی بنا پر کچھوؤں کے انڈوں سے نکلنے والے نئے بچے ساحلی علاقوں سے پانی کی طرف جانے کے بجائے مزید خشکی کی طرف جانے لگتے ہیں، جہاں وہ مر جاتے ہیں۔

Published: undefined

رات کے وقت مصنوعی روشنی حشرات کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایک سائنسی مطالعے کے مطابق صرف جرمنی میں ہی ہر موسم گرما میں رات کے وقت مصنوعی روشنی کے نتیجے میں ایسے تقریباﹰ 100 بلین چھوٹے چھوٹے حشرات مر جاتے ہیں، جن کا تعلق رات کے وقت فعال رہنے والے حشرات کی قسموں سے ہوتا ہے۔

Published: undefined

جہاں تک پودوں کا تعلق ہے تو یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ شہری علاقوں میں سٹریٹ لائٹس کے قریب لگائے گئے یا اگے ہوئے پودوں کی افزائش نسل کے لیے پولینیشن یا زیرگی بھی رات کے وقت مصنوعی روشنی کے باعث کم ہوتی ہے اور ان پر پھل بھی کم لگتے ہیں۔

Published: undefined

رات کے وقت مصنوعی روشنی کے اثرات تناور درخت بھی محسوس کرتے ہیں اور قدرتی شبینہ تاریکی میں رہنے والے درختوں کے مقابلے میں ان پر کلیاں جلد آنے لگتی ہیں جبکہ پتے معمول سے کافی زیادہ تاخیر سے جھڑتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined