سماج

پاکستانی خواتین کو خلع لینے کی مجبوری آخر کیوں ہے؟

پاکستان میں نکاح کی تنسیخ کے لیے خلع کا استعمال ان دنوں تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ تاہم ایسی خواتین کو اپنی برادری اور خاندان سے کئی طرح کے خطرات کا سامنا بھی ہے۔

پاکستانی خواتین کو خلع لینے کی مجبوری آخر کیوں ہے؟
پاکستانی خواتین کو خلع لینے کی مجبوری آخر کیوں ہے؟ 

پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں طلاق کو ایک پیچیدہ اور ممنوع عمل سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود زیادہ خواتین اپنی شادیاں ختم کرنے کا انتخاب کر رہی ہیں۔ خلع کا استعمال ان دنوں تیزی سے بڑھ رہا ہے جو اسلامی قانون کے تحت کسی عورت کو اپنی مرضی سے اپنے شوہر سے علیحدگی کا اختیار دیتا ہے۔

Published: undefined

خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس نئے رجحان میں اضافے کا سبب یہ ہے کہ اس اسلامی مملکت کے پدرسری معاشرے میں خواتین اب زیادہ بااختیار ہو رہی ہیں اور ناپسندیدہ شادیوں کو برقرار رکھنے کی مجبوری کم سے کم تر ہو رہی ہے۔

Published: undefined

پاکستان میں طلاق کے معاملات کی نگرانی کے لیے کوئی متعین ادارہ نہیں ہے اور بالعموم اسلامی شریعت کے مطابق ان پر عمل کیا جاتا ہے۔ ملک میں کوئی عورت ''طلاق کے لیے عرضی‘‘ داخل نہیں کرسکتی تاہم اسلامی شریعت نے اسے شوہر کی مرضی کے بغیر بھی شادی ختم کرنے کا حق دیا ہے، جسے خلع کہا جاتا ہے۔ یہ کسی ثالثی یا فیملی کورٹ کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔

Published: undefined

اسلامی شریعت کی رو سے کوئی عورت مختلف اسباب کی بنا پر خلع لے سکتی ہے، جس میں شوہر کی بدسلوکی، اس کی ذہنی حالت یا اسے معلق چھوڑ دینا وغیرہ شامل ہیں۔ حالانکہ اپنی شادیاں ختم کرنے کے لیے خلع لینے والی خواتین کی سرکاری تعداد معلوم نہیں ہے تاہم خلع لینے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

Published: undefined

گیلپ اور گیلانی پاکستان کی جانب سے سن 2019 میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق 58 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملک میں طلاق کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ سروے میں حصہ لینے والے ہر پانچ میں سے دو افراد کا خیال تھا کہ طلاق کے بیشتر معاملات کے لیے میاں بیوی کے سسرال والے ذمہ دار ہوتے ہیں۔

Published: undefined

پاکستانی خواتین زیادہ خود مختاری چاہتی ہیں

لاہور سے سرگرم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس پروٹیکشن سینٹر سے وابستہ وکیل عاتکہ حسن رضا نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر عورتیں خلع لینا چاہتی ہیں۔ پاکستان میں طلاق کے بیشتر معاملات شوہر کی جانب سے شروع کیے جاتے ہیں جس میں خلع کے برخلاف شوہر کی رضامندی لازمی ہے۔ عاتکہ کا کہنا تھا کہ خلع اور سرپرستی جیسے معاملات کو حل کرنے کے لیے مزید فیملی کورٹس یا دارالقضاء قائم کیے جارہے ہیں اور ان میں قاضیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

Published: undefined

عاتکہ حسن کا خیال ہے کہ بیشتر خواتین اس بات سے آگاہ ہیں کہ جسمانی استحصال بشمول نفسیاتی استحصال کے علاوہ بھی دیگر اسباب مثلاً یہ کہ 'شادی سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہورہا ہے،‘ کی بنا پربھی وہ نکاح فسخ کرا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا،''خواتین کو اپنے حقوق کا علم ہے اور وہ زیادہ خود مختار ہیں۔‘‘

Published: undefined

شاذیہ(تبدیل شدہ نام)، دو بچوں کی ماں ہے۔ انہوں نے گزشتہ برس اپنی مصیبت زدہ ازدواجی زندگی سے نجات حاصل کرلی تھی۔41 سالہ شاذیہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''میں زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوں اور مجھے کام کا بھی کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن مجھے کھانا پکانے میں مہارت حاصل ہے۔ جیسے ہی میرا کھانا پکانے کا کام چل نکلا میں نے محسوس کیا کہ میں مالی طور پر خودمختار ہو سکتی ہوں۔ میں ذہنی طور پر بھی اتنی خود مختار ہوگئی کہ میں نے بالآخر خلع لینے کا فیصلہ کرلیا۔‘‘

Published: undefined

شاذیہ اب اپنی کفالت خود کرنے کی اہل ہیں۔ تاہم اپنے بیٹوں کی جس انداز میں پرورش کرنا چاہتی ہیں وہ بہر حال مشکل ہے۔ حالانکہ بچوں کی کفالت کے حوالے سے اسلامی قانون بالکل واضح ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ شاذیہ کی طرح بیشتر خواتین کو اپنے سابق شوہروں سے کوئی پیسے نہیں ملتے۔

Published: undefined

پاکستان کا شادی کلچر

پاکستان میں پسند کی شادیوں کو ''لو میرج‘‘ کہا جاتا ہے تاہم یہاں والدین یا رشتہ داروں کے ذریعہ طے کرائی گئی شادیاں عام ہیں۔ شادی سے قبل نکاح نامہ، جو ایک طرح کا معاہدہ ہے،پر دستخط کرنا بھی عام بات ہے۔

Published: undefined

33 سالہ کمال ایک مارکیٹنگ مینیجر ہیں۔ سن 2018 میں ان کی شادی ہوئی تھی۔ تاہم حال ہی میں انہوں نے یہ کہتے ہوئے طلاق کے لیے درخواست دی ہے کہ بیوی کے ساتھ مزاج میں ''ہم آہنگی‘‘ پیدا نہیں ہوسکی۔ حالانکہ شادی سے قبل انہوں نے اپنی منگیتر کے ساتھ ڈیٹنگ بھی کی تھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،''مغرب کے برعکس جہاں لوگ بالعموم شادی سے قبل بھی قریبی ریلیشن رکھتے ہیں، یہاں آپ ایسا نہیں کرسکتے۔‘‘

Published: undefined

انہوں نے مزید کہا کہ ''حالانکہ تکنیکی لحاظ سے ہماری شادی کو ایک برس ہوچکے ہیں لیکن ہم تکنیکی طورپر صرف ڈیٹنگ ہی کررہے تھے کیونکہ ہمیں ساتھ رہنے کا موقع نہیں مل سکا تھا اور جب ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا شروع کیا تو اختلافات سامنے آئے۔‘‘

Published: undefined

مومن علی خان پیشے سے وکیل ہیں جو بالعموم فیملی کیسز دیکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ یا مالدار خاندان سے تعلق رکھنے والی خواتین اس وقت خلع کی درخواست دیتی ہیں جب شادی کو برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنے سے انہیں شوہر سے حاصل ہونے والی چیزیں واپس لوٹانی پڑتی ہیں اور انہیں مالی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔

Published: undefined

مومن خان کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں یا غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی ایسے خواتین کے لیے خلع کا فیصلہ کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ مالی دشواریاں اور مسائل ان کے سامنے ہوتے ہیں اور مالی امداد سے دست بردار ہونا ان کے لیے خاصا مشکل ہوتا ہے۔ ہانیہ(تبدیل شدہ نام) اسلام آباد میں ایک ملازمت پیشہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہے اور اچھی تنخواہ والی ملازمت کی خواہش مند ہیں۔ ان کی شادی اپنے کزن کے ساتھ طے کر دی گئی لیکن والدین کی خواہش کے باوجود وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔

Published: undefined

شادی کے بعد 23 سالہ ہانیہ کی جس روز اپنے گھر سے اپنے شوہر کے گاؤں کے لیے رخصتی ہونی تھی، وہ فرار ہوگئیں۔ لیکن چونکہ نکاح ہوچکا تھا اس لیے انہیں خلع کے لیے درخواست دینا پڑی۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں طلاق یا خلع ممنوع اور شرم کی بات سمجھی جاتی ہے۔ ایسے میں ہانیہ کو ان کے خاندان والوں نے عاق کر دیا۔

Published: undefined

ہانیہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،اگر وہ گاؤں واپس جاتی ہیں تو ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔‘‘ ہانیہ نے اب 'لو میرج‘ کرلی ہے اور اسلام آباد میں اپنے شوہر اور ان کے کنبے کے ساتھ رہ رہی ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined