سماج

دھاتی سکوں سے کاغذی نوٹوں تک، کرنسی کا ارتقا

کون کتنا امیر ہے، اس کے علامتی اظہاریہ یہی ہے کہ کس کے پاس کتنی کرنسی ہے۔ کرنسی شاید انسان کی اہم ترین ایجادات میں سے ایک ہے۔ کرنسی کا ارتقا کیسے ہوا؟

دھاتی سکوں سے کاغذی نوٹوں تک، کرنسی کا ارتقا
دھاتی سکوں سے کاغذی نوٹوں تک، کرنسی کا ارتقا 

پیسہ پچھلے کم از کم چار ہزار سال سے انسان کے ساتھ ساتھ ہے۔ اس سے قبل لین دین کے لیے اشیاء اور اجناس کا تبادلہ بہ طور پیسہ کیا جاتا تھا۔ مگر یہ تبادلہ کوئی بہت زیادہ بااعتبار اور موثر طریقہ نہیں تھا۔ یعنی اگر آپ کو ایک بکری درکار ہے جب کہ اس کے بدلے دینے کے لیے آپ کے پاس فقط گندم ہے۔

Published: undefined

اس کے لیے سب سے پہلے آپ کو ایسا بکری فروش تلاش کرنا ہو گا، جسے گندم درکار ہو۔ یعنی مسئلہ یہ ہو گا کہ اگر آپ کسی بکری فروش کے پاس گندم لے کر گئے اور اسے مثال کے طور پر ایک خنجر درکار ہے، تو پہلے آپ کو خنجر فروش تلاش کرنا پڑے گا اور پھر وہ خنجر لے جا کر بکری فروش کو دینا ہو گا۔ تبادلے کے ذریعے لین دین میں کسی شے کی موجودگی کی بجائے تمام تر دارومدار لین دین کرنے والوں کی لین دین کے لمحے میں ضرورت پر ہوتا تھا۔

Published: undefined

کوئی واسطہ درکار

محققین کے مطابق لگ بھک نو ہزار سے چھ ہزار قبل مسیح کے وقت دنیا کے بعض علاقوں میں مویشی تک لین دین کے لیے ایک واسطے کے طور پر استعمال کیے جاتے رہے، جب کہ اس کے علاوہ بھی جانوروں کی کھال، نمک، اجناس اور دھاتوں کو تیز دھار بنانے والا مواد بھی لین دین کے لیے واسطے کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔

Published: undefined

یہ تمام چیزیں کسی نہ کسی صورت میں قیمتی رہیں، تاہم بعد میں آنے والے نظاموں میں ان کی قدر گھٹتی چلی گئی۔ موجودہ کرنسی کے مقابلے میں یہ میڈیم اپنی طلب کی بنا پر قابل تبادلہ تھے۔ مثال کے طور پر اجناس خوراک کے لیے جب کہ جانوروں کی کھال لباس کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

Published: undefined

تین ہزار قبل مسیح میں میسوپوٹیمیا میں شیکل سکہ بہ طور کرنسی استعمال ہونا شروع ہوا جب کہ جاپان میں ایک خاص مقدار میں چاول کو 'کوکو‘ قرار دے کر جنسِ تبادلہ کے لیے استعمال کیا گیا۔

Published: undefined

باقاعدہ سکے

تقریبا ﹰ تین ہزار سال قبل چین میں جدید کرنسی کی جانب ایک قدم آگے بڑھایا گیا۔ یہاں چھرے، کلہاڑیاں، جانوروں کی کھالوں یا دیگر اجناس کی بجائے، ان چیزوں کی علامتوں کا استعمال کیا جانے لگا۔ یعنی اصل چیز دینے کی بجائے اس کا ایک عکس۔

Published: undefined

اسی بنیاد پر سات سو سے پانچ سو قبل مسیح میں یونان سے ہندوستان اور چین تک میں سکے رائج ہو چکے تھے۔ ہندوستان اور چین میں سکوں میں چھد کے ذریعے ان کی قدر کا تعین کیا جاتا تھا۔ اس طرح یہ سکے دھاگے یا رسی کے ذریعے باندھے بھی جاتے تھے اور ان کی نقل و حمل بھی آسان تھی۔ یونانی جزیرے ایجینا پر غالباﹰ پہلا مہر والا سکا رائج کیا گیا تھا۔

Published: undefined

اس جزیرے کے ہمسایے لیڈیا میں، جو اب مغربی ترکی کا علاقہ بنتا ہے، سونے اور چاندی کے قدرتی آمیزے یعنی الیکٹرم کے ذریعے سکے بنائے گئے، جن پر مختلف جانوروں کی اشکال بہ طور مہر استعمال کی جانے لگیں۔ اس کرنسی کو لیڈیا میں بہ طور قومی کرنسی استعمال کیا گیا اور اس کے ذریعے تجارت کا عمل شروع ہوا۔ اس طرح یہ دنیا کے امیر ترین علاقوں میں سے ایک بن گیا۔ شاید یہ دولت ہی تھی کہ سلطنت فارس نے لیڈیا پر حملہ کر کے اسے فتح کر لیا۔

Published: undefined

کاغذی کرنسی

چھ سو قبل مسیح میں چین ہی نے کرنسی کے ارتقا میں ایک اور قدم بڑھایا۔ دھاتی سکے مہنگے اور بھاری ہوتے تھے اور ان کی تیاری بھی مشکل تھی۔ اس کے علاوہ ان کا تجارت کے لیے استعمال بھی بہت آسان نہیں تھا۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے قدیم چین نے کاغذ کا استعمال شروع کیا۔ واضح رہے کہ کاغذ چین ہی میں ایجاد کیا گیا تھا۔ تیرہویں صدی میں جب مارکو پولو چین گئے تو تب تک وہاں پچھلے اٹھارہ سو برس سے کاغذ بہ طور کرنسی استعمال ہو رہا تھا۔

Published: undefined

یورپ 17ویں صدی تک دھاتی سکوں ہی کو کرنسی کے بہ طور استعمال کرتا رہا۔ اس دوران یورپی ممالک دنیا کے کئی ممالک تک میں فتوحات تک کر چکے تھے۔ سکوں کی تیاری اور انہیں اپنے مفتوحہ علاقوں میں پہنچانا ایک نہایت مشکل عمل تھا۔

Published: undefined

حیران کن بات یہ ہے کہ یورپی حکومتوں کی جانب سے کاغذ کا بہ طور کرنسی استعمال یورپ سے باہر ہوا۔ فرانس نے شمالی امریکا میں نوآبادیات قائم کیں، تو وہاں تک سکوں کی ترسیل ایک بڑا مسئلہ بن گئی۔ کینیڈا میں 1685 تک یورپی سپاہیوں کو گورنر کے دستخط والا کاغذ بہ طور تنخواہ دیا جاتا رہا۔

Published: undefined

جغرافیائی طور پر سلطنتوں کا دائرہ کار وسیع ہوا، تو یورپ کا کاغذی کرنسی پر انحصار بھی بڑھنا شروع ہو گیا۔ اس کی بنیادی وجہ اقتصادی اور نوآبادیاتی وسعت تھی، جس میں دھاتی سکوں کی ترسیل آسان نہیں رہی تھی۔

Published: undefined

سونا ایک معیار

کاغذی نوٹ دھیرے دھیرے ایک معیار بن گئے اور یوں دھاتی سکے رفتہ رفتہ ختم ہوتے چلے گئے۔ قیمتی دھاتی سکوں کے خاتمے کے باوجود کاغذی نوٹ کی قدر سونے اور چاندی کے حوالے سے بھی منسوب جڑی رہی۔ امریکا میں ڈالر کی قدر کو سونے کے ساتھ جوڑا گیا (بعض ممالک میں کرنسی کی قدر کو چاندی کے ساتھ بھی نتھی کیا گیا۔)

Published: undefined

دوسری عالمی جنگ کے بعد تاہم امریکی ڈالر بین الاقوامی تجارت کے لیے معیار بن گیا۔ یورپ اور دنیا بھر کی کرنسی اب بھی اپنی قدر کا تعین امریکی ڈالر کی نسبت سے کرتی ہیں۔ جب کہ امریکی ڈالر کی قدر سونے کی قدر سے جڑی رہی

Published: undefined

جدید کرنسی

بیسویں صدی میں اقتصادی وسعت دنیا میں موجود مجموعی سونے کے حجم سے زائد ہو گئی، تو 1971 میں امریکا نے ڈالر کے لیے سونے کی قدر کو بہ طور معیار استعمال کرنا ترک کر دیا۔ سونے کے معیار کے خاتمے کے بعد کرنسی کی قدر کا انحصار افراط زر اور اقتصادی کارکردگی سے نتھی ہو گیا۔ یعنی اب آپ کے ہاتھ میں اس وقت روپے کا یہ جو نوٹ ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنے ملک کی مجموعی اقتصادیات کا ایک ٹکڑا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined