فرانس کی حکومت نے ایران میں اپنے تمام شہریوں کو تنبیہ جاری کرتے ہوئے، اس بات پر زور دیا کہ وہ "جلد سے جلد ملک چھوڑ دیں۔"
Published: undefined
فرانسیسی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا، "دوہری شہریت رکھنے والوں سمیت ان تمام فرانسیسی شہریوں کو، جو ایران کے سفر پر ہیں، کو گرفتاری، بے جا حراست اور غیر منصفانہ عدالتی کارروائیوں جیسے خطرات ہیں۔‘‘
Published: undefined
بیان میں مزید کہا گیا، "یہ خطرہ ان لوگوں کو بھی ہے، جو محض سیاحت کے لیے ایران کا دورہ کر رہے ہیں۔" فرانسیسی وزارت خارجہ کی ویب سائٹ نے خبردار کیا ہے، "ایران میں گرفتار یا حراست میں لیے گئے شہریوں کو قونصلر کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے تہران میں فرانسیسی سفارت خانے کا دائرہ اختیار بھی بہت محدود ہے۔"
Published: undefined
جمعرات کے روز ایران کے ایک سرکاری ٹیلی وژن نے دو فرانسیسی شہریوں، فرانسیسی زبان کے اساتذہ کی یونین کے اہلکار سیسیل کوہلر اور ان کے ساتھی ژاک پیرس، کو "اعترافات جرم" کرتے ہوئے دکھایا تھا۔ ان دونوں کو رواں برس میں مئی میں اساتذہ کی ہڑتالوں کے دوران بدامنی پھیلانے کی کوشش کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
Published: undefined
گیارہ مئی کو ایران نے ان کی گرفتاری کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ "افراتفری پھیلانے اور معاشرے کو غیر مستحکم کرنے کے مقصد سے ملک میں داخل ہوئے تھے۔"
Published: undefined
دو دیگر فرانسیسی شہری، ایرانی نژاد فرانسیسی محقق فریبہ عادل خان اور بینجمن بریئر، کو بھی تہران نے قید میں رکھا ہوا ہے۔ ایران نے بریئے پر جاسوسی کا الزام عائد کیا ہے اور انہیں طویل قید کی سزا سنائی۔ انہیں مئی 2020 میں گرفتار کیا گیا تھا۔
Published: undefined
اس وقت ایران کی جیلوں میں مغربی ممالک کے 20 سے بھی زیادہ شہری قید ہیں۔ انسانی حقوق کے گروپ تہران پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ مغربی حکومتوں سے فائدہ اٹھانے اور مراعات حاصل کرنے کے لیے اس طرح کی یرغمالی سفارت کاری کا استعمال کرتا ہے۔
Published: undefined
گزشتہ 16 ستمبر کو ایک 22 سالہ ایرانی کرد خاتون مہسا امینیکی موت کے بعد سے ہی ایران ڈرامائی طور سماجی افراتفری اور شہری انتشار کی لپیٹ میں ہے۔ مہسا امینی کو ایران میں خواتین سے متعلق لباس کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔
Published: undefined
تاہم دوران حراست ہی ان کی موت ہو گئی تھی اور اسی کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے، جو اب بھی بیشتر شہروں میں جاری ہیں۔ گزشتہ روز ہی ایران نے ایک بار پھر سے اپنا یہ دعویٰ دہرایا کہ امینی کی موت پولیس کی حراست میں تشدد کے بجائے بچپن میں ان کو ہونے والی ایک بیماری سے ہوئی تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined