اس بہت پریشان کن صورت حال کے بارے میں برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران شروع میں ہر کوئی بس ایک ہی بات سے ڈرتا تھا کہ ایک سوال کبھی نا پوچھنا پڑے۔ یہ سوال تھا: اتنی زیادہ لاشوں کا کیا کیا جائے؟ لیکن المیہ یہ ہے کہ اب برطانیہ میں مردوں کی تدفین کا اہتمام کرنے والے ادارے یہی سوال پوچھنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
Published: undefined
Published: undefined
برطانیہ میں کووڈ انیس کے وبائی مرض سے پیدا شدہ مجموعی صورت حال اور اس کے نتائج کا براہ راست مقابلہ کرنے والے سماجی طبقات کافی زیادہ ہیں مگر ان میں سے تین کو درپیش حالات کا اندازہ لگا کر تو کوئی بھی حساس انسان انتہائی رنجیدہ ہو جاتا ہے۔
Published: undefined
ان میں سے ایک تو وہ ڈاکٹر اور طبی کارکن ہیں، جنہیں مسلسل لاکھوں مریضوں کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے۔ دوسرے انتقال کر جانے والے مریضوں کے وہ لواحقین ہیں، جو اپنے عزیزوں کی آخری رسومات میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے عائد پابندیوں کے باعث حسب خواہش شرکت نہیں کر سکتے۔
Published: undefined
تیسرا طبقہ مردوں کی تدفین کرنے والے اداروں کے وہ کارکن ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں ماضی میں ایسی کوئی صورت حال کبھی دیکھی ہی نہیں تھی۔ یہ کارکن مسلسل چوبیس گھنٹے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں مگر ان کی ذمے داریاں ہیں کہ پوری ہی نہیں ہوتیں۔
Published: undefined
Published: undefined
برطانیہ کا شمار مغربی یورپ کے سب سے زیادہ آبادی والے تین بڑے ممالک میں ہوتا ہے۔ وہاں کورونا وائرس کی وبا اب تک ایک لاکھ 26 ہزار سے زائد انسانوں کی موت کی وجہ بن چکی ہے۔
Published: undefined
مردوں کی آخری رسومات کا اہتمام کرنے والے برطانوی پیشہ ور اداروں کے سربراہان کی ملکی تنظیم کی سرکردہ رکن ڈیبرا اسمتھ کہتی ہیں، ''مردوں کی قبروں میں تدفین سے لے کر میتیں نذر آتش کرنے والے اداروں کے کارکنوں اور تابوت تیار کرنے والے افراد تک، موجودہ صورت حال ہر کسی کے لیے قطعی غیر معمولی ہے۔‘‘
Published: undefined
ڈیبرا اسمتھ کہتی ہیں، ''اتنے زیادہ انسانوں کی موت ایک ناقابل فہم نقصان ہے۔ ہمارے اداروں کے سالہا سال سے یہ کام کرنے والے کارکن بھی انسانی برداشت کی آخری حدوں کو پہنچ چکے ہیں۔ وہ بھی ان حالات سے اتنی ہی بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جتنا ہم سب میں سے کوئی بھی دوسرا انسان۔‘‘
Published: undefined
Published: undefined
گزشتہ ماہ جب برطانیہ میں کورونا کے باعث اموات کی روزانہ تعداد مسلسل ایک ہزار سے زیادہ رہنے لگی تھی اور نئی انفیکشنز کی یومیہ تعداد بھی کئی ہزار بنتی تھی، تب لندن کے مغرب میں مقامی حکومت نے ایک ایسی عمارت عارضی طور پر قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جہاں انتقال کر جانے والے مریضوں کی میتوں کو تدفین سے پہلے رکھا جا سکے۔
Published: undefined
اس عبوری 'ڈیڈ باڈی ہال‘ میں ایک ہزار تک میتیں رکھنے کی گنجائش ہے۔ مگر یہ گنجائش بھی کب کی پوری ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ انتقال کر جانے والے مریضوں کی میتیں رکھنے کے لیے کینٹ کاؤنٹی میں بھی حکام کو گاڑیوں کے شو رومز اور ورکشاپس والے ایک علاقے میں ایک عارضی لیکن بہت بڑا ہال تعمیر کرنا پڑ گیا۔
Published: undefined
Published: undefined
کورونا کی وبا کے باعث لاکھوں اموات کا مطلب ہے جتنی میتیں اتنی ہی مرتبہ آخری رسومات کی ادائیگی۔ دیگر یورپی ممالک کی طرح برطانیہ میں بھی یہ روایت عام ہے کہ اکثریتی مسیحی آبادی سے تعلق رکھنے والے شہریوں کی میتین دفن کرنے کے بجائے نذر آتش کر دی جاتی ہیں اور پھر ان کی راکھ دفنا دی جاتی ہے۔ لیکن اس کام کے لیے شمشان بھی عام قبرستانون کی طرح ہر جگہ تو نہیں ہوتے۔
Published: undefined
ڈیبرا اسمتھ کہتی ہیں، ''ایک تو کورونا کی وبا کے باعث بے تحاشا اموات ہو رہی ہیں۔ لیکن اس بیماری کے علاوہ بڑھاپے، خرابی صحت یا دیگر امراض کی وجہ سے بھی تو اموات معمول کے مطابق ہی ہو رہی ہیں۔ اس لیے مرنے والوں کی آخری رسومات کا پیشہ وارانہ اہتمام کرنے والے اداروں کو غیر معمولی حد تک دباؤ کا سامنا ہے۔ اس سے بھی المناک بات یہ ہے کہ یورپ میں موسم سرما میں فلو، بخار اور دیگر وجوہات کی بنا پر انسانی اموات کی شرح موسم گرما کے مقابلے میں زیادہ رہتی ہے۔‘‘
Published: undefined
برطانیہ کی طرح باقی ماندہ یورپ میں بھی ان دنوں سردیوں کا موسم عروج پر ہے اور ساتھ ہی کورونا کی وبا بھی۔ یہ دونوں عوامل مسلسل بہت زیادہ انسانی ہلاکتوں کی وجہ بن رہے ہیں۔ اسی لیے جہاں ایک طرف ہزارہا میتیں تدفین کے انتظار میں ہیں، تو دوسری طرف اس 'بہت مختلف موسم سرما‘ میں اجتماعی معاشرتی زندگی کے چہرے پر دکھ اور تعزیت کے سائے بہت گہرے ہو چکے ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined