فکر و خیالات

لوک سبھا انتخاب 2024: مہاراشٹر میں تیسرے مرحلہ کے دوران شاہی خاندانوں اور سیاسی قدآوروں کا گھمسان

مہاراشٹر میں تیسرے مرحلے کی 11 لوک سبھا سیٹوں پر شاہی خاندانوں سے وابستہ شاہو چھترپتی مہاراج، اُدین راجے بھونسلے اور سیاسی قدآوروں میں خاص کر شرد پوار کے خاندان کے گھمسان پر سب کی توجہ مرکوز ہے

<div class="paragraphs"><p>تصاویر آئی اے این ایس</p></div>

تصاویر آئی اے این ایس

 

مہاراشٹر میں 7 مئی کو تیسرے مرحلے میں 11 لوک سبھا سیٹوں کے لئے ووٹنگ ہونے جا رہی ہے۔ ان سیٹوں میں سے جن سیٹوں پر سب کی نظر ہے وہاں پر شاہی خاندانوں سے وابستہ شاہو چھترپتی مہاراج، اُدین راجے بھونسلے اور سیاستی قدآوروں میں خاص کر شرد پوار کے خاندان کے گھمسان پر سب کی توجہ مرکوز ہے۔ شیوا جی مہاراج کے خاندان سے وابستہ شاہو چھترپتی مہاراج کولہاپور میں ایکناتھ شندے دھڑے کی شیوسینا کے سنجے منڈلیک کو چیلنج دے رہے ہیں۔ شاہو چھترپتی پہلی مرتبہ کانگریس کے ٹکٹ پر انخابات لڑ رہے ہیں۔ منڈلیک کی امیدواری بی جے پی کے لوگوں کو پسند نہیں آ رہی۔ بی جے پی کے لوگوں کا الزام ہے کہ منڈلیک پانچ سال اپنے حقہ سے غائب تھے۔ اس لئے ان کے لئے شندے دھڑے کو کافی مشقت کرنی پڑ رہی ہے۔ شیوا جی کے دوسرے شاہی خاندان کے فرد ادین راجے بھونسلے کا مقابلہ شرد پوار دھڑے کے ششی کانت شندے سے ہے۔ بھونسلے بی جے پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں، جبکہ وہ اس سے پہلے لوک سبھا کے ضمنی انتخاب میں شرد پوار کی غیر منقسم این سی پی سے ہار گئے تھے۔ بی جے پی ایک حکمت عملی کے تحت شندے کو ایک مبینہ معاملہ میں قانونی مقدمہ میں گھسیٹ لینے کی مشق کر رہی ہے۔ لیکن شندے نے خود کو بے داغ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد شرد پوار نے بھی بھونسلے کو ہرانے کے لئے جال تیار کیا ہے۔

Published: undefined

ادھر، بارامتی میں شرد پوار کی اپنے ہی خاندان کے ساتھ پہلی بار انتخابی لڑائی ایک دلچسپ موڑ پر ہے۔ پوار کے خلاف بغاوت کر کے بی جے پی کے ساتھ اقتدار میں شامل ہونے والے شرد پوار کے بھتیجے اجیت پوار نے اپنی بیوی سنیترا پوار کو چچا شرد کی بیٹی سپریا سولے کے خلاف میدان میں اتارا ہے۔ خاندان تقسیم ہوا تو ظاہر ہے کہ ان کے ووٹر بھی تقسیم ہوں گے۔ ووٹروں کی مختلف آراء ہیں اور ان کی حمایت نتائج سے ظاہر ہوگی۔ شرد کا ریاست میں سیاسی اثر و رسوخ ہے۔ بارامتی کی وہی کہانی عثمان آباد (دھاراشیو) میں دوہرائی جا رہی ہے۔ اوم راجے ادھو ٹھاکرے گروپ کے امیدوار ہیں تو ارچنا اجیت دھڑے سے میدان میں ہیں۔ اوم راجے اور ارچنا کے رشتے کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جو دیور اور بھابی ہیں۔ اوم راجے کے والد پون راجے نمبالکر ہیں جنہیں قتل کر دیا گیا ہے۔ پون راجے ڈاکٹر پدم سنگھ پاٹل کے کزن ہیں۔ ارچنا ڈاکٹر پاٹل کے بیٹے رانا رنجیت سنگھ پاٹل کی بیوی ہیں۔ اجیت کے ڈاکٹر پاٹل سے بھی خاندانی تعلقات ہیں۔ اجیت کی بیوی سنیترا پوار ڈاکٹر پاٹل کی بہن ہیں۔ اس لیے عثمان آباد میں بھی پوار خاندان کے درمیان خاندانی لڑائی ہے۔ اوم راجے مہا وکاس اگھاڑی کے امیدوار ہیں اور انہیں شرد کی حمایت حاصل ہے۔ اس حمایت کی وجہ سے یہاں بھی چچا بھتیجے کی لڑائی ہے، کیونکہ اجیت گروپ کی امیدوار ارچنا ہیں۔

Published: undefined

اب سولاپور نظر ڈالیں جو کرناٹک کی سرحد سے متصل ہے۔ یہاں مراٹھی اور کنڑ بولنے والے رہتے ہیں۔ یہ کانگریس کا گڑھ رہا ہے لیکن گزشتہ دو انتخابات سے یہ بی جے پی کے قبضے میں ہے۔ اس بار دو موجودہ ایم ایل اے پرنیتی شندے (کانگریس) اور رام ساتپوتے (بی جے پی) کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔ جہاں کانگریس کے سینئر لیڈر سشیل کمار شندے کی بیٹی پرنیتی اپنی وراثت کو بچانے میں مصروف ہیں، وہیں بی جے پی لیڈر اور نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کے قریبی رام کو بی جے پی کے نئے گڑھ کو محفوظ بنانے کا چیلنج درپیش ہے۔ لنگایت برادری بی جے پی سے ناراض ہے، اس لیے بی جے پی کو رام کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑ رہی ہے۔ بی جے پی نے اپنے موجودہ رکن پارلیمنٹ جے سیدھیشور سوامی کو دہرانے سے گریز کیا ہے، کیونکہ عام لوگوں میں ان کے خلاف ناراضگی ہے۔ انہوں نے اپنے پارلیمانی حلقے کے لیے کوئی ترقیاتی کام بھی نہیں کروایا۔ اس علاقے میں پانی کا شدید بحران ہے۔ آج بھی شہروں اور دیہات کے لوگوں کو ٹینکروں کے ذریعے پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ جبکہ مودی نے اپنے رپورٹ کارڈ میں دعویٰ کیا ہے کہ ہر گھر میں نل کا پانی پہنچا دیا گیا ہے۔

Published: undefined

پوار خاندان کے درمیان لڑائی کونکن خطہ کے رائے گڑھ لوک سبھا حلقہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ یہاں کے موجودہ رکن پارلیمنٹ سنیل ٹٹکرے نے بھی بغاوت کر کے اجیت دھڑے میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اجیت نے یہاں سے پھر سے تٹکرے کو امیدوار بنایا ہے لیکن ادھو دھڑے کے اننت گیتے تٹکرے کے خلاف میدان میں ہیں۔ ادھو اور شرد مہا وکاس اگھاڑی میں ایک ساتھ ہیں۔ اس لیے شرد بھی اجیت کے امیدوار کو ہرانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے یہاں بھی چچا بھتیجے کے درمیان لڑائی کا کھیل دیکھنے کو مل رہا ہے۔ تاہم، تٹکرے پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور رکن پارلیمنٹ علاقے میں ترقیاتی کام نہیں کئے۔ ماحول کے ساتھ ساتھ یہاں ماہی گیروں کا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ تٹکرے کے خلاف لوگوں میں ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔ کونکن میں ہی رتناگیری-سندھو درگ لوک سبھا سیٹ کے لیے بی جے پی کے مسلط کردہ امیدوار نارائن رانے سے ایکناتھ شندے کا دھڑا ناراض ہے۔ شندے دھڑے کی شیوسینا نے اسے اپنی روایتی سیٹ قرار دیتے ہوئے اپنا دعویٰ کیا تھا۔ مراٹھی مانوش کے معاملے پر بال ٹھاکرے کو بھی کونکن سے زبردست حمایت حاصل ہوئی تھی لیکن بی جے پی نے شندے دھڑے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔ اس سیٹ پر ادھو دھڑے کے موجودہ رکن پارلیمنٹ ونائک راوت نے گزشتہ دو انتخابات میں رانے کے بیٹے نیلیش رانے کو شکست دی ہے۔ رانے اپنے ہی میدان میں کمزور نظر آ رہے ہیں۔ دوسری طرف انہیں شندے دھڑے کی ناراضگی کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ یہاں بھی مہا وکاس اگھاڑی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ رتناگیری سندھو درگ میں پہلی بار کمان اور تیر کا انتخابی نشان نظر نہیں آئے گا۔ بی جے پی کا کمل اور ادھو ٹھاکرے کی شیو سینا کی مشعل کی وجہ سے ادھو دھڑے کو شیوسینکوں سے زیادہ ہمدردی ملنے کا امکان ہے۔

Published: undefined

تیسرے مرحلے میں بی جے پی کی پریشانی بڑھ گئی ہے، کیونکہ جس طرح سے بی جے پی نے اپنی حلیف شندے دھڑے کی شیو سینا اور اجیت دھڑے کی این سی پی پر سیٹوں اور امیدواروں کو لے کر دباؤ ڈالا ہے اس سے کارکنوں میں ناراضگی ہے۔ کام نہ کرنے والے اور کمزور لیڈروں کو ٹکٹ دینا بھی بی جے پی کو مہنگا پڑ رہا ہے۔ سانگلی، ستارا، ماڑھا، سولاپور اور رتناگیری-سندھو درگ لوک سبھا سیٹیں بی جے پی کے لیے بہت آسان نہیں ہیں۔ وہیں بی جے پی نے 11 لوک سبھا سیٹوں میں سے 6 سیٹوں لاتور، سولاپور، مدھا، ستارا، رتناگیری-سندھ درگ، سانگلی پر اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ اجیت دھڑے کو بارامتی، عثمان آباد، رائے گڑھ میں 3 سیٹیں دی گئی ہیں اور کولہاپور، ہاتاکنانگلے میں شندے دھڑے کو کل 2 سیٹیں دی گئی ہیں۔ ان 11 سیٹوں کا جغرافیائی محل وقوع مختلف ہے۔ ان میں مغربی مہاراشٹرا سے 7 (ستارا، کولہا پور، بارامتی، سانگلی، سولاپور، ماڑھا اور ہاتاکنانگلے)، مراٹھواڑہ (عثمان آباد اور لاتور) سے 2 اور کونکن (رائے گڑھ اور رتناگیری-سندھودرگ) سے 2 سیٹیں شامل ہیں۔ ان علاقوں میں کسانوں کی خودکشی، خشک سالی اور پانی کے مسائل درپیش ہیں۔ ترقیاتی منصوبے کام نہیں کر رہے۔ بے روزگاری عروج پر ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں کو روزگار کے لئے ہجرت کرنا پڑ رہی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined