سماج

جکارتہ کے فیشن ویک کی غیر معمولی مقبولیت

انڈونیشی دارالحکومت کا ایک گنجان آباد علاقہ ٹین ایجرز کی ’کیٹ واک‘ کا مرکز بن چکا ہے۔ جکارتہ کا یہ علاقہ فیشن کے دلدادہ نوجوانوں کا گڑھ تصور کیا جانے لگا ہے تاہم پولیس خوش نہیں ہے۔

جکارتہ کے فیشن ویک کی غیر معمولی مقبولیت
جکارتہ کے فیشن ویک کی غیر معمولی مقبولیت 

جکارتہ ٹریفک سے بھرا وہ شہر ہے، جہاں پیدل چلنے والوں کا سڑک عبور کرنا بہت ہی دشوار گزار کام ہوتا ہے۔ انڈونیشیا کے دارالحکومت کے بیچ و بیچ فیشن کے پرستاروں کا جمگھٹا مقامی پولیس کے لیے ایک بڑا مسئلہ مگر ٹین ایجرز کی غیر معمولی دلچسپی کا سبب بنا ہوا ہے۔

Published: undefined

جکارتہ کے ڈاؤن ٹاؤن میں اُس رسمی اجتماع نے شہر کے مضافاتی علاقوں بشمول سیتایام کے تمام مُہم جو فیشن ڈیزائنرز کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی ہے، جسے'' سیتایام فیشن ویک‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

Published: undefined

ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر ہلچل

نوجوانوں کی غیر معمولی دلچسپی کا مرکز بنے ہوئے ٹک ٹاک اور سماجی رابطوں کے ایک پلیٹ فارم انسٹاگرام پر اس فیشن شو کی ویڈیوز وائرل ہوئیں اور سیتایام سے تعلق رکھنے والے فیشن ڈیزائنرز اور اس شعے سے شغف رکھنے والوں کو راتوں رات بہت زیادہ شہرت ملی گئی۔

Published: undefined

ان انڈونیشی نوجوانوں کو اس کے ذریعے نہ صرف ماڈلنگ کی جابز ملنے لگیں ہیں بلکہ ان کے مداحوں کی تعداد میں انتہا سے زیادہ اضافہ بھی ہوا ہے۔

Published: undefined

ایک 18 سالہ طالب علم رکات الفندی نے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا، ''مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں میں اپنے فیشن اسٹائل کی اپنے انداز میں تخلیق کر سکتا ہوں اور اس کا بھرپور اظہار کر سکتا ہوں۔ یہ سب کچھ بہت ہی دلچسپ اور تفریح سے بھرپور ہے۔ یہاں اتنے سارے لوگ ہمیں ملتے ہیں اور میں نئے دوست بنا سکتا ہوں۔ میں تو گھر جانا بھی نہیں چاہتا۔‘‘

Published: undefined

جکارتہ کا شمار دنیا کے اُن چند ممالک میں ہوتا ہے، جہاں بے شمار فلک بوس عمارتیں، جیدید طرز کے کیفیز اور ماڈرن رستورانوں کی بھرمار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر کے مرکزی علاقوں میں عموماً سڑکوں پر گاڑیاں نہیں چلتیں جبکہ پیدل چلنے والوں کے لیے بھی ضوابط بنے ہوئے ہیں۔

Published: undefined

ایسے شہر کے مرکز میں کسی اجتماع کا اہتمام یا جلسے وغیرہ کا انعقاد بہت مشکل تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود انڈونیشی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ٹرینوں کا سفر طے کر کے اُس جگہ پہنچ رہی ہے، جہاں اس فیشن شوزُ کا انعقاد ہو رہا ہے۔

Published: undefined

اس علاقے میں پولیس پہلے ہی والک کرنے کے راستوں پر پابندی عائد کرنے کے لیے تعینات کر دی گئی ہے۔ پولیس اہلکار لاؤڈ اسپیکر پر ہجوم کو سڑک سے دور رہنے کی تنبیہ کرتے بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

Published: undefined

تاہم پولیس کی کوششیں فیشن کی شائقین ان لڑکیوں کو باز نہیں رکھ سکیں جو چوڑے پائنچوں والی جینز اور رنگین چشمے لگائے '' سیتایام فیشن ویک‘‘ کا حصہ بنیں۔

Published: undefined

دوسری طرف نوجوان لڑکے چمڑے کی جیکٹس، اسٹائلش جوتے اور فر کوٹ زیب تن کیے فیشن واک میں شریک ہوئے۔ متعدد نوجوان اس حد تک پُر جوش ہیں کہ وہ رات گئے تک فیشن ویک میں تفریح کرتے ہوئے گھر واپسی کے لیے ٹرین مس کرنے کے بعد فٹ پاتھ پر سوئے تو پولیس کے ہاتھوں پکڑے گئے۔

Published: undefined

اس پولیس کارروائی کے خلاف بیان دیتے ہوئے الفندی نے کہا، ''ہمیں یہاں گھومنے پھرنے کا حق حاصل ہے، یہ ایک عوامی جگہ ہے اور مجھے یہاں آ کر اسکول کے امتحان کے اسٹرس اور ذہنی تناؤ کو دور کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘‘

Published: undefined

30 ملین کی آبادی والے میگا سٹی جکارتہ میں نمائش پر رکھی گئے'' آؤٹ فٹس‘‘ یا ملبوسلت کی خبر دراصل زبانی طور پر ایک سے دوسرے تک پھیلتے پھیلتے ہر کسی کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ سائرہ وؤلان ساری ایک 15 سالہ طالب علم ہیں، جو شمالی جکارتہ کی رہائشی ہیں۔ وہ اسکول کی پڑھائی چھوڑ کر صرف فروخت کر کے اپنا خرچا پورا کرتی ہے۔

Published: undefined

وہ اپنی سہلیوں کے ساتھ سیتایام فیشن ویک میں شریک ہوئیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں ہمیشہ دوسرے لوگوں کے لباس سے حیران رہ جاتی ہوں۔ ان کے کپڑے بہت خوشنما اور اسٹائلش ہوتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

اس اجتماع کو ٹوکیو کے مشہور زمانہ ہارایوکو فیشن ڈسٹرکٹ کے چھوٹے ورژن سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ تحریک اتنی مقبول ہو گئی ہے کہ 'کاپی کیٹ‘ اجتماعات انڈونیشیا کے سب سے زیادہ آبادی والے جزیرے جاوا کے مختلف علاقوں میں پھیل گئے ہیں۔ جیسے مثال کے طور پر سیمارنگ اور بانڈونگ جیسے شہروں میں۔

Published: undefined

اس کی وائرل ہونے والی شہرت نے مشہور شخصیات اور بااثر افراد کے ساتھ ساتھ صدر جوکو ویدودو سمیت دیگر سرکاری عہدیداروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی ہے۔ انڈونیشی صدر کا اس کے بارے میں کہنا تھا کہ نوجوانوں کو تخلیقی طور پر اپنا اظہار کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined