عمران خان کی وکلا ٹیم دونوں عدالتوں میں مصروف رہیں اور عمران خان سے متعلق تین مقدمات میں اپنے دلائل دیں۔ ان مقدمات میں توشہ خانہ مقدمے میں عمران خان کی سزا کے خلاف اپیل اور سزا کی معطلی کی درخواست ہے، جو اسلام آباد ہائی کورٹ میں سنی جا رہی ہے۔
Published: undefined
عمران خان کے وکیل انتظار حسین پنجوتھہ نے ڈی ڈبلیو کو ان مقدمات کے حوالے سے بتایا، ”ایک اور مقدمہ ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ اسلام آباد کے دائرہ کار کے تعین کے حوالے سے ہے جب کہ تیسرا مقدمہ کوئٹہ میں ایک وکیل کے قتل کے حوالے سے ہے۔" اس قتل کا کیس عمران خان کے خلاف درج ہوا تھا اور پی ٹی آئی اس مقدمے کو ختم کرنے کی اپیل کر رہی ہے۔
Published: undefined
عمران خان کی قانونی ٹیم کے ایک اور رکن محمد اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کوئٹہ قتل مقدمے میں بلوچستان ہائی کورٹ پہلے ہی مقدمے کو ختم کرنے کی اپیل کو مسترد کر چکی ہے۔ ”اسی لئے سپریم کورٹ میں اب اپیل کی جارہی ہے۔"
Published: undefined
پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ توشہ خانہ مقدمے میں عمران خان کو سزا انتہائی کمزور بنیادوں پر دی گئی ہے اور یہ کہ متعلقہ عدالت کو عمران خان کو رہا ہی کرنا پڑے گا۔ تاہم پاکستان میں عدالتی کاروائیوں پہ گہری نظر رکھنے والے کورٹ رپورٹر حسنات ملک کا خیال ہے کہ عمران خان کو ممکنہ طور پر کسی اور مقدمے میں گرفتار کر لیا جائے گا۔
Published: undefined
حسنات ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اس بات کا قوی امکان ہے کہ عمران خان کی سزا کو معطل کر دیا جائے۔ تاہم سزا کے خلاف ان کی اپیل التوا میں پڑی رہے گی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ سزا کو معطل کر سکتا ہے لیکن اگر اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسا نہیں کیا، تو سپریم کورٹ یقینا ایسا کر دے گی۔" ایک دیگر وکیل محمد اظہرصدیق ایڈوکیٹ محمد حسنات کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ عمران خان کو ممکنہ طور پر دوسرے مقدمات میں گرفتار کیا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ہماری اطلاعات ہیں کہ لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نو مئی کے مقدمات کے حوالے سے عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر دیے ہیں جبکہ سائفر کیس میں بھی ممکنہ طور پہ عمران خان کو گرفتار کیا جا سکتا ہے اور نیب بھی گرفتاری کے لیے پہنچ سکتی ہے۔" اس حوالے سے عمران خان کے وکیل انتظار حسین پنجوتھہ کا کہنا ہے کہ نہ صرف انہوں نے سزا کی معطلی کے لیے اپیل کی ہے بلکہ سپریم کورٹ سے یہ بھی درخواست کی ہے کہ وہ تمام مقدمات میں عمران خان کی گرفتاری کو روکے۔
Published: undefined
جب سے سابق وزیر اعظم عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا ہوئی ہے، اس وقت سے لے کر اب تک اس سزا پر بحث و مباحثہ جاری ہے۔ عمران خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں جن قانونی نکات پر سزا دی گئی ہے، وہ انتہائی کمزور ہے۔ اس حوالے سے محمد اظہر صدیق ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پہلا نقطہ تو عدالت کے دائرہ کار سے ہے۔ عمران خان نے کاغذات نامزدگی اور اثاثہ جات جمع کراتے وقت میانوالی کا پتہ دیا تھا، تو توشہ خانہ کیس پنجاب کی کسی سیشن کورٹ میں جانا چاہیے تھا لیکن اسلام آباد کے سیشن کورٹ نے اس مقدمے کی سماعت کی۔ جب ہم نے دائرہ کار کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا، تو لاہور ہائی کورٹ نے ہمیں کہا کہ چونکہ آپ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے بھی رجوع کیا ہے، تو وہاں سے فیصلہ لے لیں۔"
Published: undefined
محمد اظہر صدیق نے اعتراف کیا کہ یہ عمران خان کی قانونی ٹیم سے غلطی ہوئی ہے۔ ”ان کا خیال تھا کہ کیونکہ الیکشن کمیشن کا دفتر اسلام آباد میں واقع ہے اس لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے لیکن اسلام آباد ہائی کورٹ نے دائرہ کار کے سوال کا مسئلہ حل نہیں کیا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دائرہ کار کے فیصلے کے بغیر ہی سیشن کورٹ نے عمران خان کے خلاف سزا کا فیصلہ بھی دے دیا۔"
Published: undefined
محمد اظہر صدیق کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تعریف یہ ہے کہ اس میں چاروں صوبوں سے چاروں ارکان اور چیف الیکشن کمشنر ہوتے ہیں اور ان ہی میں سے کوئی عمران خان کے خلاف شکایت بھیج سکتا تھا لیکن یہ شکایت سیکرٹیری الیکشن کمیشن کی طرف سے گئی، جو الیکشن کمیشن کا حصہ نہیں ہے۔ اظہر صدیق کے مطابق اس میں ایک اور اہم نقطہ یہ ہے کہ اراکین اسمبلی 31 دسمبر تک اپنے اثاثوں کی تفصیلات الیکشن کمیشن میں جمع کراتے ہیں، اگر کوئی جرم ہوا بھی تھا تو 120 دن میں یہ شکایت بھیجی جانی چاہیے تھی۔ ”لیکن یہاں اس کے لیے دو تین سال کا انتظار کیا گیا۔"
Published: undefined
تاہم سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے بدھ کو سماعت کے دوران کہا تھا کہ قانون میں لکھا ہے جب ڈکلیئریشن جھوٹا ہونے کا پتہ چلے گا، اس کے ایک سو بیس دن تک شکایت درج ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس پر کہا تھا کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے آٹھ سو سے زیادہ ارکان ہیں۔ ”الیکشن کمیشن سینکڑوں ارکان اسمبلی کے اثاثوں کا جائزہ ایک سو بیس دن میں تو نہیں لے سکتا۔ ایک سو بیس دن کب شروع ہوں گے، اس کے لئے مائنڈ اپلائی کرنا پڑتا ہے۔"
Published: undefined
پی ٹی آئی کے وکلا کا دعوی ہے کہ عمران خان کو حق دفاع نہیں دیا گیا۔ اس نقطہ کو سپریم کورٹ میں دوران سماعت جج مظاہر نقوی کی طرف سے بدھ کو اٹھایا گیا۔ انہوں نے کہا، ”ملک کی کسی بھی عدالت میں کریمنل کیس میں ملزم کو حق دفاع کے بغیر کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا، حق دفاع کے بغیر توشہ خانہ کیس کا کیسے فیصلہ کردیا گیا۔" تاہم سرکاری وکیل امجد پرویز کا دعوی تھا کہ ملزم کو تین مرتبہ حق دفاع کا موقع دیا گیا۔
Published: undefined
ان نکات سے قطع نظر آج پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا کی پوری توجہ عمران خان کے حوالے سے چلنے والے ان مقدمات پر ہوگی۔ اگر عمران خان کو رہائی مل جاتی ہے، تو یہ ایک بڑی سیاسی فتح پاکستان تحریک انصاف کے لیے ہو سکتی ہے۔ تاہم اگر سزا کی معطلی کی اپیل مسترد ہوتی ہے، تو اس سے پی ٹی آئی کے حلقوں میں مایوسی کی بادل چھا سکتے ہیں لیکن ایسے کسی فیصلے پر تنقید بھی خوب ہوگی کیونکہ پانچ برس یا اس سے کم سزا عموما معطل ہو جاتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined