سماج

یورپ میں جہادیوں کو کیسے قابو کیا جائے؟

مسلمان انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے نوجوانوں کا دوبارہ معاشرتی انضمام کیسے ممکن ہو گا۔ یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جو یورپی دانشوروں کی سوچ کو متحرک رکھے ہوئے ہے۔

یورپ میں جہادیوں کو کیسے قابو کیا جائے؟
یورپ میں جہادیوں کو کیسے قابو کیا جائے؟ 

تقریباً ایک مہینے میں پیرس، نیس، ویانا اور ڈریسڈن میں ہونے والے چار دہشت گردانہ حملوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی سے جنم لینے والی جہادی سرگرمیوں کو ابھی تک کنٹرول نہیں کیا جا سکا۔ پانچ برس قبل فرانسیسی دارالحکومت میں منظم دہشت گردانہ حملوں، جن میں ایک سو تیس انسانوں کی ہلاکت ہوئی تھی، کے بعد انتہا پسند مسلم دہشت گردی بدستور ناقابلِ شکست ہے۔ ایک مرتبہ پھر حالیہ چار حملوں کے بعد یورپی سیاستدانوں اور دانشوروں میں یہ سوچ پائی جا رہی ہے کہ سرحدوں کی نگرانی شدید سخت کر دی جائے، ممالک میں سکیورٹی معاملات میں قریبی ربط اور خطرے کا باعث بننے والے مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔

Published: undefined

انفرادی حملہ آور

Published: undefined

حالیہ چند ہفتوں کے دوران کیے گئے دہشت گردانہ حملوں میں فرد واحد کی کارروائی دیکھی گئی اور یہ مستقبل میں بھی خطرہ ہوں گے کیونکہ ان کا تعلق ایسے افعال میں شریک ہونے والوں سے ہمدردی رکھنے والے گروپوں سے ہے۔ اب سوالات یہ ہیں کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں؟ اور ان کے ارادے کیا ہیں؟

Published: undefined

ادھر سب سے گنجان آباد وفاقی جرمن ریاست نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں سلفی عقیدے کے حامل پرتشدد سوچ کے حامل نوجوانوں پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ یہی سلفی عقیدے کے حامل نوجوان جہادی پراپیگنڈے کا اصل نشانہ ہیں۔ اسی پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر یہ نوجوان پرتشدد راہ اپنانے کو 'مثبت‘ فعل خیال کرتے ہیں۔

Published: undefined

'والدین سے بہتر مسلمان‘

Published: undefined

جہادی اسلام کے ایک فرانسیسی ماہر اولیور روئے کا کہنا ہے کہ پراپیگنڈے سے متاثرہ نوجوان جہادی تشدد کے تصور میں جذب و کشش رکھتے ہیں۔ اولیور کا کہنا ہے کہ یہ نوجوان برسوں قران کا مطالعہ کیے بغیر خود کو اپنے والدین سے بہتر مسلمان تصور کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ فرانسیسی دانشور کا مزید کہنا ہے کہ اسی باغیانہ سوچ کے حامل نوجوانوں کا گروپ 'جہادی اسلامی بیانیے‘ کے اثر میں عملی بغاوت سے گریز نہیں کرتا۔ 'جہادی اسلامی بیانیہ‘ القاعدہ اور خود ساختہ 'اسلامک اسٹیٹ‘ کی جانب سے فراہم کیا جا رہا ہے۔

Published: undefined

موت کی پرستش

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اولیور روئے کا کہنا ہے جہادی اسلام کے پراپیگنڈے سے متاثر ہونے والوں کا تعلق اُس مسلک سے ہو جاتا ہے جو 'موت کی پرستش‘ کو اپنا سب کچھ گردانتے ہیں۔ روئے کے مطابق ان نوجوانوں کے ذہن میں سما جاتا ہے کہ جب وہ جلد مارے جائیں گے تو ان کا ٹھکانہ جنت ہو گا اور وہ شہدا میں شمار کیے جائیں گے۔ جرمن شہر فرینکفرٹ میں مقیم سماجی ماہر فیلکس روسمائسل کا خیال ہے کہ انتہا پسندانہ سوچ کے حامل نوجوان خواہ وہ کوئی عورت ہو یا مرد، ایک 'تربیتی عملی قوت‘ کے حصار میں ہوتے ہیں۔ ان کو ایک فکر لاحق ہو جاتی ہے کہ وہ کیسے اور کیونکر وابستہ توقعات پر پورا اتریں گے۔ روسمائسل کے مطابق ایک نوجوان کے مقابلے میں بلوغت کی عمر والے ٹین ایجر کو جہادی پراپیگنڈا زیادہ آسانی سے متاثر کرتا ہے۔

Published: undefined

ذہن میں بسی بنیاد پرستی کو تحلیل کرنے کی حد

Published: undefined

تھوماس مُؤیکے دو دہائیوں سے بنیاد پرستی کو تحلیل کرنے کی کوششوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ 'انسدادِ تشدد نیٹ ورک‘(VPN) نامی ایک ادارے کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر مستحکم اور بحرانی دور سے گزرنے والے نوجوان آسانی سے انتہا پسند جہادی حلقے کے اثر میں آ جاتے ہیں اور وہ انتہا پسندانہ اقدام کے لیے بھرتی بھی ہو جاتے ہیں۔ تھوماس مُؤیکے کے ادارے سے وابستہ اہلکار جیلوں میں مقید بنیاد پرست نوجوانوں سے بات چیت کے لیے جاتے رہتے ہیں اور انہیں بار بار یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ ضرور سوچیں کہ جو انہوں نے کیا ہے وہ کس حد تک صحیح ہے۔ یہ بھی انہیں بتایا جاتا ہے کہ کسی بھی جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے، ان کا عمل ایک ماتحت اور حکم بجا لانے والے مہرے سے زیادہ نہیں ہوتا۔

Published: undefined

تھوماس مُؤیک کا کہنا ہے کہ کسی بھی فرد کے اندر سے بنیاد پرستی کو تحلیل یا ختم کرنے اور اس کے ذہن میں تبدیلی لانے کی ایک حد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سماجی و تدریسانہ دائرے میں مثبت اور منفعت بخش فعال اقدامات سے تبدیلی کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined