سماج

سعودی عرب: ملک بدری سے قبل حراستی مراکز میں تارکین وطن پر کیا بیتتی ہے؟

سعودی عرب سے ہزاروں ایتھوپیائی تارکین وطن کو ملک بدر کیا جا رہا ہے۔ ان افراد کے مطابق ملک بدری سے قبل انہیں کئی مہینوں تک انتہائی برے حالات میں زیر حراست رکھا گیا۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس 

مئی کے مہینے میں ایتھوپیا واپس بھیجے جانے سے قبل عبداللہ محمد نے'ناقابل برداشت‘ 13 مہینے سعودی حراستی مرکز میں گزارے۔

Published: undefined

عبداللہ کہتے ہیں کہ انہیں قریب 200 دیگر لوگوں کے ساتھ ایک حراستی مرکز میں بند رکھا گیا تھا۔ یہ لوگ فرش پر سوتے اور انہیں صرف اتنا کھانا ملتا تھا جس سے بمشکل زندہ رہ سکتے تھے۔

Published: undefined

جدہ کے مشرق میں شمیسی حراستی مرکز میں گزرے وقت کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ''وہاں کھانا بھی کافی نہیں تھا۔ ہمیں صرف ناشتہ دیا جاتا اور اس میں بھی جتنے چاول ملتے وہ ایک فرد کے لیے بھی کافی نہیں ہوتے تھے۔‘‘ عبداللہ نے یہ بھی بتایا کہ زیر حراست پناہ گزینوں کو طبی دیکھ بھال فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا جاتا تھا۔

Published: undefined

ایتھوپیا کے جنوبی علاقے سے ٹیلی فون کے ذریعے دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب ہم دروازہ کھٹکھٹا کر انہیں بتاتے کہ کوئی بیمار ہے تو وہ ہمیں 'کتے‘ قرار دیتے اور کہتے کہ بیمار کو مرنے دو۔‘‘

Published: undefined

ایتھوپیا کی طرف سے بھی نظر انداز

دوران حراست 31 سالہ عبداللہ اور دیگر ساتھیوں نے جیل سے ایتھوپیا کے سفارت خانے سے بھی فون پر رابطہ کیا۔ تاہم ان کے مطابق سفارت خانے نے بھی کوئی مدد نہ کی۔ سفارت خانے کے کردار کے بارے میں عبداللہ نے بتایا، ''ایک دن سفارت خانے کے ایک اہلکار نے جب حراستی مرکز میں پولیس کو ہمیں مارتے دیکھا تو ہم سے کہا کہ انہیں مار لینے دو۔ جب ہم انہیں (سفارت خانے کو) بتاتے کہ کوئی بیمار ہے تو بھی وہ ہماری خیر خبر لینے نہیں آتے تھے۔ ہم نے انہیں ایک بزرگ شخص کے مرنے کی اطلاع دی تو انہوں نے لاش وصول کرنے اور تدفین کرنے سے بھی انکار کر دیا۔‘‘

Published: undefined

عبداللہ کے مطابق وہ اتنے مایوس ہو چکے تھے کہ انہیں یقین ہو چلا تھا کہ کبھی اس قید سے زندہ نہیں نکل پائیں گے۔ وہ کہتے ہیں، ''میں نے سوچا میں کبھی باہر نہیں نکل پاؤں گا، کبھی دوبارہ ایک عام انسان کی طرح زندگی بسر نہیں کر سکوں گا۔‘‘ ڈی ڈبلیو نے ان الزامات کے بارے میں سعودی عرب میں ایتھوپیا کے سفارت خانے سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اب تک یہ کوششیں کامیاب نہیں ہو پائیں۔

Published: undefined

پناہ کے متلاشیوں کے لیے مقبول منزل

سلیمان بیلیٹے نے عبداللہ سے بھی زیادہ طویل عرصہ حراست میں گزارا۔ تاہم وہ 22 مہینوں کی قید کو دوبارہ یاد کر کے اس پر بات نہیں کرنا چاہتے اور صرف اتنا کہا کہ وہ 'دم گھٹ جانے والا وقت‘ تھا۔ تاہم 33 سالہ سلیمان نے اپنے ان خوابوں کا ذکر ضرور کیا جن کی تکمیل کے لیے انہوں نے سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ان کے ان خوابوں میں اپنے والدین کے لیے ایک گھر بنانا، پیسے بچا کر وطن واپس لوٹنا اور وہاں اپنا کاروبار شروع کرنا شامل تھے۔

Published: undefined

سلیمان نے فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد کئی مہینے اپنے وطن میں ملازمت کی تلاش میں گزارے۔ اس صورت حال میں جب انہیں سعودی عرب میں مقیم ایک دوست نے بتایا کہ وہ باآسانی اس خلیجی ریاست میں بطور ڈرائیور ملازمت حاصل کر سکتے ہیں تو انہوں نے قسمت آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔

Published: undefined

سلیمان کے مطابق، ''میرے دوست نے مجھے کہا تم تعلیم یافتہ ہو، لائسنس حاصل کرنا مشکل نہیں ہو گا اور پھر امیر لوگوں کی گاڑی چلا کر آسان زندگی گزارو گے۔‘‘ لیکن جب سلیمان سعودی عرب پہنچے تو انہیں ایئرپورٹ ہی سے گرفتار کر لیا گیا اور سیدھا حراستی مرکز میں منتقل کر دیا گیا۔

Published: undefined

ملک بدری کا معاہدہ

سلیمان اور عبداللہ ان 38000 ایتھوپیائی باشندوں میں شامل ہیں جنہیں دونوں حکومتوں کے مابین ملک بدری سے متعلق معاہدے کے بعد 30 مارچ سے سعودی عرب سے ملک بدر کر کے وطن واپس بھیجا گیا۔ معاہدے کے تحت سعودی عرب ایک لاکھ سے زائد ایتھوپیائی پناہ گزینوں کو ملک بدر کرے گا۔

Published: undefined

عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق سعودی عرب ایتھوپیائی تارکین وطن کی پسندیدہ منزل ہے اور ایتھوپیا کے قریب ساڑھے سات لاکھ شہری سعودی عرب میں مقیم ہیں۔عالمی ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان میں سے تقریباﹰ 450,000 افراد 'بے قاعدہ ذرائع‘ یا غیر قانونی طریقے سے سعودی عرب آئے ہیں۔ ایسے افراد کو وطن واپس بھیجنے کے لیے مدد کی ضرورت پڑے گی۔

Published: undefined

حراستی مراکز میں ابتر صورت حال

گزشتہ کچھ برسوں کے دوران سعودی عرب نے دستاویزات نہ رکھنے والے افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔ ایسے افراد کو گرفتار کر کے حراستی مراکز میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ایسے مراکز کے ابتر حالات کی شدید مذمت کر رہی ہیں۔

Published: undefined

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان حراستی مراکز میں قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک کے بارے میں سن 2020 میں کی گئی تحقیقات پر مبنی رپورٹ جاری کی تھی۔ رپورٹ میں لکھا گیا، ''قیدیوں کو جوڑوں کی صورت میں زنجیر میں جکڑا جاتا ہے، انہیں قید خانے کے فرش کو بیت الخلا کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور بہت زیادہ رش والے قید خانوں میں ہر وقت بند رکھا جاتا ہے۔‘‘ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ قیدیوں کو طبی امداد طلب کرنے یا حالات کے بارے میں شکایت کرنے پر گارڈز کی طرف سے تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

Published: undefined

سعودی عرب کی طرف خطرناک سفر

اپنے خاندان کی کفالت کے لیے عبداللہ پہلے بھی دو مرتبہ سعودی عرب جا چکے تھے۔ معاشی حالات سے مجبور ہر کر سن 2018 میں انہوں نے تیسری مرتبہ بھی سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے انسانوں کے اسمگلروں کو 10,000 سعودی ریال ادا کیے۔

Published: undefined

اسمگلروں نے انہیں صومالیہ کے ساحلی قصبے بوساسو سے آبنائے باب المندب پار کرا کر یمن پہنچایا۔ عبداللہ نے بتایا کہ کشتی پر سفر کے دوران شدید گرمی کے باعث چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ آخر کار وہ سعودی عرب پہنچ گئے اور وہاں بطور مزدور کام کرنا شروع کر دیا۔ عبداللہ کو آموں اور ایووکاڈو کے ایک فارم پر مزدوری کرتے وقت حراست میں لے لیا گیا۔

Published: undefined

’ایتھوپیا کی حکومت مدد نہیں کرتی‘

ایتھوپیا کی حکومت نے ملک بدری کے بعد وطن لوٹنے والوں کو عارضی رہائش، خوراک اور انتظامی خدمات فراہم کرنے کے لیے 11 ملین ڈالر کی مدد فراہم کرنے کی اپیل کر رکھی ہے۔ تاہم سعودی عرب میں ایک برس قید کے بعد وطن لوٹنے والے عبداللہ بتاتے ہیں کہ ایتھوپیا کی حکومت نے وطن واپسی کے بعد اپنے گاؤں تک پہنچنے کے لیے صرف بس کا کرایہ ہی بطور مدد فراہم کیا۔

Published: undefined

سلیمان کی صورت حال اس سے بھی ابتر ہے۔ طویل حراست کے دوران سلیمان کی صحت شدید متاثر ہوئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں، ''میرا جسم کانپتا ہے، میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا اور مجھے معقول نیند بھی نہیں آتی۔‘‘ ایسی صورت حال میں سلیمان کو مدد کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined