سماج

بھارت میں گھریلو ملازمائیں استحصال اور بدسلوکی کا شکار

بھارت میں گھریلو ملازماؤں کے ساتھ زیادتی، تشدد اور استحصال کے واقعات اب عام ہو گئے ہیں۔ انہیں انتہائی تکلیف دہ حالات میں مجبوراً کام کرنا پڑتا ہے۔

بھارت میں گھریلو ملازمائیں استحصال اور بدسلوکی کا شکار
بھارت میں گھریلو ملازمائیں استحصال اور بدسلوکی کا شکار 

گزشتہ ماہ دارالحکومت دہلی کے نواحی علاقے گروگرام میں ایک انتہائی تعلیم یافتہ اور متمول جوڑے کو اپنی 14سالہ ملازمہ پر حملہ، تشدد اور جنسی طورپر ہراساں کرنے کے شبہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔

Published: undefined

پولیس نے پانچ ماہ تک مبینہ طور پر گھر میں قید رہنے کے بعد مشرقی ریاست جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والی لڑکی کو بازیاب کرایا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے جسم پر چوٹ کے جو نشانات ہیں وہ تشدد کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

Published: undefined

اسسٹنٹ پولیس کمشنر پریت پال سنگوان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مذکورہ جوڑا لڑکی پر مسلسل تشدد اور جنسی طورپر ہراساں کر رہا تھا۔ اسے کھانا نہیں دیا جاتا تھا اور کسی وجہ کے بغیر مارا پیٹا جاتا تھا۔ اس کے چہرے اور پاوں پر چوٹ کے نشانات تھے۔‘‘

Published: undefined

یہ واقعہ گزشتہ سال کے اسی طرح کے ایک دیگر واقعے سے ملتا جلتا ہے، جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک سینئر رہنما سیما پاترا کو مشرقی ریاست جھارکھنڈ میں اپنی گھریلو ملازمہ کے ساتھ جسمانی طورپر تشدد کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

Published: undefined

سیما پاترا مبینہ طورپراپنی 29سالہ ملازمہ کو گرم توے اور لوہے کی سلاخوں سے پیٹا کرتی تھیں۔ سول سوسائٹی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا اور بعض اوقات اسے فرش سے پیشاب چاٹنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ ملازمہ کو کئی دنوں تک بغیر کھانا اور پانی دیے کمرے میں بند رکھا جاتا تھا۔

Published: undefined

گوکہ ان واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد عوامی سطح پر غم و غصے کا اظہار تو کیا گیا تاہم لوگوں کا خیال ہے کہ ایسے واقعات دہلی، ممبئی، کولکتہ، بنگلور اور چنئی جیسے میٹرو پولیٹن شہروں میں عام ہیں۔ البتہ جب کبھی یہ خطرناک صورت اختیار کرلیتے ہیں تو لوگوں کو اس کا علم ہوتا ہے۔

Published: undefined

گھریلو ملازمین ناگزیر لیکن مصائب سے دوچار

بھارت میں گھریلو ملازمین کو انتہائی کم تنخواہ دینے، زیادہ کام کرانے اور آجروں کے ذریعہ بدسلوکی کی وسیع تر اطلاعات ہیں۔ کورونا کی عالمی وبا کے دوران بہت سے جزوقتی ملازمین اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کچھ گھریلو ملازمین بدسلوک آجرین کے چنگل میں مہینوں پھنسے رہے۔

Published: undefined

سماجی کارکنان برسوں سے حکومت پر گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بھارتی قانون کے تحت انہیں باضابطہ ملازم نہیں تسلیم کیا جاتا، جس کا مطلب ہے کہ انہیں بنیادی حقوق مثلاً کم از کم اجرت، سماجی تحفظ کے فوائد اور استحصال اور بدسلوکی کے خلاف تحفظ تک رسائی حاصل نہیں ہے۔

Published: undefined

دہلی ڈومیسٹک ورکرز یونین کی انیتا جونیجہ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ان گھریلو ملازمین کے لیے فوائد اور تحفظات کی ضمانت حاصل کرنے کے لیے حکام کی جانب سے تعاون اب تک انتہائی مایوس کن رہی ہے۔ ہم ان ملازمین کے ساتھ بدسلوکی کی اطلاع دینے کے لیے ایک ہیلپ لائن چلاتے ہیں، لیکن ہزاروں ملازمین ایسے ہیں جواپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو خاموشی سے برداشت کرلیتے ہیں۔‘‘

Published: undefined

جونیجہ کا خیال ہے کہ صرف دہلی میں آٹھ لاکھ سے دس لاکھ کے قریب جزوقتی گھریلو ملازمین ہیں جب کہ پندرہ لاکھ کے قریب کل وقتی گھریلو ملازمین ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بہت کمزور ہیں اور انہیں اپنے حقوق کے بارے میں کوئی علم نہیں ہے اس لیے ان سے نہ صرف زیادہ کام لیا جاتا ہے بلکہ استحصال بھی کیا جاتا ہے۔

Published: undefined

بہت سے معاملات میں یہ پایا گیا کہ جھارکھنڈ،، اوڈیشہ اور چھتیس گڑھ جیسی ریاستوں سے ہجرت کرنے والی ملازمائیں زیادہ استحصال اور جبری مشقت کا شکار ہوئیں۔ ایسے واقعات کم عمر خواتین کے ساتھ زیادہ پیش آئے۔ گھریلو ملازم فراہم کرنے کا کام کرنے والی نجی ایجنسیاں ان خواتین کو گمراہ کرکے اور جھوٹے وعدے کرکے دہلی جیسے میٹروپولیٹن شہروں میں لاتی ہیں۔ اس طرح وہ بھی ان کے استحصال میں شریک ہیں۔

Published: undefined

گھریلو ملازمین کے لیے کوئی تحفظ نہیں

سجاتا مودی پین تھوزیلالرگل سنگم کی صدر ہیں۔ یہ خواتین کارکنوں کی ٹریڈ یونین ہے اور جنوبی تمل ناڈو میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے سرگرم ہے۔ یہ غیر سرکاری تنظیم گھریلو ملازمین کے کام کے حالات اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کی وکالت کرتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ چنئی میں گھریلو ملازمین کو کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ انہیں شہر سے دور کچی آبادیوں میں رہنے کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔

Published: undefined

مودی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ایسی ملازمائیں اپنی ملازمتیں کھو دیتی ہیں کیونکہ ان کے لیے اپنے گھر کو سنبھالنا اور کافی دور سفر کرکے کام پر جانا مشکل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے تنخواہوں میں کمی، معیار زندگی اور ٹرانسپورٹ سے متعلق حادثات جیسے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔‘‘

Published: undefined

سول سوسائٹی، ٹریڈ یونینوں اور انسانی حقوق کے گروپوں کی کوششوں کے نتیجے میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) نے ایک کنونشن منظور کیا تھا جس میں گھریلو ملازمین کے لیے معیارات طے کیے گئے ہیں۔ بھارت گو کہ اس دستاویز پر دستخط کرنے والے ملکوں میں شامل ہے لیکن اس نے اب تک اس کی توثیق نہیں کی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined