جلی ہوئی گاڑیاں، سڑکوں پر جھڑپیں، خواتین اپنے ہیڈ اسکارف جلاتی ہوئیں، ایران میں ستمبر کے وسط سے مظاہروں کا یہ سلسلہ شروع ہوا ایک 22 سالہ کرد لڑکی مہسا امینی کی ایران کی اخلاقی پولیس کی زیر حراست موت کے بعد جسے درست طور پر سر نہ ڈھانپنے پر حراست میں لیا گیا تھا۔ مہسا امینی کو 13 ستمبر میں ایرانی دارالحکومت تہران میں گرفتار کیا گیا تھا اور تین دن بعد ایک ہسپتال میں اس کی موت واقع ہو گئی۔
Published: undefined
ایران ہیومن رائٹس (IHR) کے مطابق ان مظاہروں کے دوران اکتوبر کے آغاز تک150 افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیںجبکہ سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس کی طرف سے انتہائی سختی سے نمٹنے کے باوجود مظاہروں کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ پولیس ظلم و تشدد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہیں، خاص طور پر انسٹاگرام پر، جو ایران میں بہت زیادہ صارفین استعمال کرتے ہیں۔
Published: undefined
ایران میں یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ان آخری پلیٹ فارمز میں سے ایک تھا جو عوامی طور پر قابل رسائی تھا۔ ایرانی حکومت دیگر کئی پلیٹ فارمز پر پابندی بھی عائد کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ موبائل انٹرنیٹ کا سلسلہ بھی کئی بار مسلسل کئی کئی گھنٹوں کے لیے معطل کیا جا چکا ہے۔
Published: undefined
ایرانی حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ تک رسائی روکنے کے واقعات کے دوران کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز خود اپنے طور پر بھی سنسر شپ میں مصروف ہیں۔ اپوزیشن ایکٹیوسٹ، گروپوں اور میڈیا اداروں کا کہنا ہے کہ انسٹاگرام نے بعض ہیش ٹیگز، ویڈیوز اور پوسٹس ہٹا دیں۔
Published: undefined
اپنی ایک ٹوئٹ میں ایرانی نژاد برطانوی اداکارہ اور ایکٹیوسٹ نازنین بنیادی نے سوال اٹھایا کہ فیس بُک کی مالک کمپنی میٹا نے، جو انسٹاگرام کی بھی مالک ہے، احتجاج سے متعلق اتنی زیادہ پوسٹس کیوں ہٹا دی ہیں۔
Published: undefined
ایرانی نژاد امریکی صحافی سامان اربابی نے بھی میٹا پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے حال ہی میں ایسی ویڈیوز ہٹا دی ہیں، جن میں مظاہرین ایرانی رہنما کے لیے موت کی تمنا کر رہے تھے۔
Published: undefined
ٹوئٹر پر انہوں نے لکھا کہ یہ کمپنی احتجاجی بینرز اور نعروں کی نسبت آمروں کے لیے زیادہ احترام رکھتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ویڈیو جو 33 لاکھ بار دیکھی جا چکی تھی اسے بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ ایران سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے افراد کی طرف سے چلائے جانے والے ٹیلی وژن مانوٹو، اور ڈاکومنٹری نیٹ ورک 1500 تصویر نے بھی پوسٹس ڈیلیٹ کرنے کے بارے میں رپورٹ کیا ہے۔
Published: undefined
بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں قائم فرائیے یونیورسٹی سے منسلک میڈیا اور کمیونیکیشن ریسرچر مارکوس میشائلسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے بھی اس چیز کا مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے۔ وہ اور ان کے ایک ایرانی ساتھی اس طرح کے معاملات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ایسی پوسٹس کو محفوظ کر رہے ہیں جنہیں ڈیلیٹ کیا جا رہا ہے، جبکہ اس طرح کا دوسرا مواد بدستور آن لائن موجود ہے۔
Published: undefined
میشائلسن کے مطابق، ''اس بات کی وضاحت کرنا مشکل ہے کہ کیوں (میٹا کی) گائیڈ لائنز پر بہت سختی سے عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ میرے پاس اس کی وضاحت تو نہیں ہے مگر صورتحال یہی ہے۔‘‘
Published: undefined
ڈی ڈبلیو کی جانب سے ان الزامات کے بارے میں ردعمل جاننے کے لیے جب میٹا سے رابطہ کیا گیا تو اس کمپنی کے ایک ترجمان کا کہنا تھا، ''ہم آن لائن رسائی کے لوگوں کے حق پر بھرپور یقین رکھتے ہیں، ایران سمیت۔ ایرانی عوام اپنی قریبی لوگوں کے قریب رہنے کے لیے، معلومات کے حصول اور اہم واقعات پر روشنی ڈالنے کے لیے انسٹاگرام جیسی ایپس کا استعمال کرتے ہیں۔۔۔ اور ہمیں امید ہے کہ ایرانی حکام ان کی رسائی جلد بحال کر دیں گے۔اسی دوران ہماری ٹیمز صورتحال پر قریبی نظر رکھے ہوئے ہیں، اور صرف ایسے مواد کو ہٹانے پر توجہ رکھے ہوئے ہیں جو ہمارے ضوابط کے خلاف ہوں، ساتھ ہی ان ضوابط پر عمدرآمد میں کسی غلطی کو بھی جلد از جلد رفع کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘
Published: undefined
میٹا کی طرف سے جرمنی کے پبلک ریڈیو اسٹیشن BR کو بتایا گیا کہ مانوٹو ٹی وی پر لگائی گئی پابندیوں کا مقصد 'سپیم‘ کو روکنے کی کوشش تھی، جنہیں اب ہٹا دیا گیا ہے۔ (یہ آرٹیکل پہلی مرتبہ جرمن زبان میں شائع کیا گیا۔)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined