ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی طرف سے 24 اگست جمعرات کے روز شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کووڈ انیس کی وبا کے ساتھ ہی افراط زر کی بڑھتی شرحوں کی وجہ سے ایشیا میں تقریباً 68 ملین افراد انتہائی غربت کا شکار ہو گئے۔
Published: undefined
اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس ترقی پذیر ایشیائی ممالک میں 155.2 ملین افراد، جو کہ خطے کی آبادی کا 3.9 فیصد ہیں، انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 67.8 ملین کے اعداد و شمار کافی زیادہ ہیں اور کووڈ 19 کی وبا اور زندگی میں بڑھتے اخراجات کے بحران کے بغیر ایسا نہیں ہو سکتا۔
Published: undefined
افراط زر کے لیے سن 2017 کی طے شدہ قیمتوں کی بنیاد پر انتہائی غربت کی تعریف یہ ہے کہ یومیہ 2.15 ڈالر سے بھی کم رقم پر روزمرہ کی گزاری جائے۔ کورونا کی وبا اور جغرافیائی سیاسی تناؤ میں اضافے نے پچھلے کچھ سالوں میں سپلائی لائنوں میں خلل ڈالا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں افراط زر کی شرحوں میں اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
افراط زر کے لیے سن 2017 کی طے شدہ قیمتوں کی بنیاد پر انتہائی غربت کی تعریف یہ ہے کہ یومیہ 2.15 ڈالر سے بھی کم رقم پر روزمرہ کی گزاری جائے۔ کورونا کی وبا اور جغرافیائی سیاسی تناؤ میں اضافے نے پچھلے کچھ سالوں میں سپلائی لائنوں میں خلل ڈالا ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں افراط زر کی شرحوں میں اضافہ ہوا ہے۔
Published: undefined
اے ڈی بی کے چیف اکانومسٹ البرٹ پارک نے کہا کہ ایشیا اور بحرالکاہل خطے میں مستقل بہتری ہو رہی ہے، تاہم یہ دوہرا بحران، ''غربت کے خاتمے کی طرف پیش رفت کو کمزور کر رہا ہے۔'' ان کا کہنا تھا، ''غریبوں کے لیے سماجی تحفظ کے ذرائع کو مضبوط کرنے نیز ایسی سرمایہ کاری اور اختراع کو فروغ دینے سے، جو ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرتی ہوں، اس سے خطے کی حکومتیں دوبارہ ٹریک پر آ سکتی ہیں۔''
Published: undefined
سن 2021 میں اے ڈی بی نے ایک برس پہلے سے موازنہ کر کے یہ تخمینہ پیش کیا تھا کہ کورونا کی وبا سے پہلے کے مقابلے میں کووڈ کی وجہ سے 80 ملین افراد انتہائی غربت میں چلے گئے تھے۔
Published: undefined
بڑھتی مہنگائی سے سب سے زیادہ غریب لوگ متاثر ہوئے ہیں، کیونکہ وہ خوراک، ایندھن اور دیگر اشیائے ضروریہ کی زیادہ قیمتیں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ اس سے ان کی آمدن میں بھی کمی آتی ہے۔ اس کی وجہ سے صحت کی دیکھ بھال، تعلیم یا دیگر اخراجات کے لیے ان کے پاس پیسے ہی نہیں بچتے ہیں، جو طویل مدت میں ان کی صورتحال کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ اس صورتحال سے خواتین بھی غیر متناسب طور پر متاثر ہوئی ہیں، کیونکہ وہ مردوں کے مقابلے میں کم کمانے کے ساتھ ساتھ بلا معاوضہ بھی کام کرتی ہیں۔
Published: undefined
اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ کم آمدنی کے علاوہ، غریب لوگ ضروری سامان اور خدمات تک رسائی کے لیے ایک پریمیم بھی ادا کرتے ہیں۔ ''مثال کے طور پر، کم آمدن والے گھرانوں کو اکثر اشیاء کم مقدار میں خریدنا پڑتا ہے، جو زیادہ مقدار میں خریدنے سے قدرے سستی مل سکتی ہیں۔ وہ ایسی بستیوں میں رہنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں، جہاں انہیں صحت کے زیادہ خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کی صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔''
Published: undefined
رپورٹ میں ایسے طریقے تجویز کیے گئے ہیں جن سے ایشیا میں حکومتیں زندگی گزارنے کی لاگت کے بحران سے نمٹنے میں مدد کر سکتی ہیں۔ اس میں سماجی تحفظ کے نظام کو مضبوط بنانا، زرعی ترقی کے لیے سپورٹ میں اضافہ، مالیاتی خدمات تک رسائی کو بہتر بنانا، بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینا اور تکنیکی جدت کو فروغ دینا شامل ہے۔
Published: undefined
اے ڈی بی کا تخمینہ ہے کہ ایشیائی آبادی میں سے تقریباً تین میں سے ہر ایک شخص یا مجموعی طور پر 1.26 بلین افراد کو سن 2030 تک معاشی طور پر کمزور سمجھا جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined