ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست اتر اکھنڈ کے علاقے روڑکی میں ایک چرچ پرتین اکتوبر کو 200 سے زائد شر پسندوں نے حملہ کر کے توڑ پھوڑ کی تھی۔ یہ حملہ مبینہ طورپر ہندو انتہا پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے کیا تھا۔ اس حملے میں کم از کم پانچ افراد زخمی ہو گئے تھے۔ مشتعل ہجوم نے فرنیچر، تصویریں اور موسیقی کے آلات وغیرہ بھی توڑ دیے تھے۔ انہوں نے 'وندے ماترم‘ اور 'بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے بھی لگائے تھے۔
Published: undefined
آل انڈیا کیتھولک یونین کے ترجمان جان دیال نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اتر اکھنڈ اور مرکز میں بی جے پی حکومتوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس طرح کے واقعات دنیا بھر میں بھارت کے لیے بدنامی کا سبب بنتے ہیں۔
Published: undefined
چرچ کی منتظم سادھنا لانس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی شکایت کے باوجود پولیس نے اب تک کسی حملہ آور کو گرفتار نہیں کیا بلکہ الٹا ان کے اور نو دیگر افراد کے خلاف کیس درج کر دیا۔ ان سب پر ایک خاتون کو دھمکی دینے اور حملہ کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ لانس کا کہنا تھا، ”ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اتر اکھنڈ پولیس سیاسی دباؤ میں ہے کیونکہ اس نے اب تک کسی کو گرفتار نہیں کیا ہے۔ الٹا خود ہمارے ہی خلاف کیس درج کر لیا۔ یہ سیاسی اغراض پر مبنی ہے۔"
Published: undefined
اتراکھنڈ پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے میڈیا سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ لانس کے خلاف درج کیس بظاہر مشکوک دکھائی دیتا ہے۔
Published: undefined
’’آج ہماری ٹیم نے چرچ کے قریب واقع ایک گھر کے پاس لگے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج حاصل کر لی ہے۔ متاثرین کے خلاف درج کرایا گیا کیس بظاہر جھوٹا نظر آتا ہے اور ہم اسے وقت آنے پر منسوخ کر دیں گے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ چرچ پر حملے کے معاملے میں جن لوگوں کے خلاف کیس درج کرایا گیا ہے، ان کا ٹھکانہ معلوم ہو گیا ہے اور وہ جلد ہی گرفتار کر لیے جائیں گے۔
Published: undefined
بھارت میں کسی مسجد یا چرچ پر حملے کو بالعموم تبدیلی مذہب کے الزام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ بی جے پی کے ریاستی صدر مدن کوشک نے ایک بیان میں کہا کہ اس چرچ کا استعمال ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرانے کے لیے ہو رہا تھا۔ ”اس واقعے میں جو لوگ ملوث ہیں، وہ دراصل اسی کالونی کے رہنے والے تھے اور چرچ کو مذہب کی تبدیلی کے لیے استعمال کیے جانے کی وجہ سے ناراض تھے۔"
Published: undefined
سادھنا لانس اس الزام کی تردید کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ”میں ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر تھی اور ریٹائرمنٹ کے بعد چرچ میں خدمت انجام دے رہی ہوں۔ میں سب کچھ اپنی جمع کردہ رقم اور پینشن کے پیسوں سے کرتی ہوں۔ مذہب تبدیل کرانے کا الزام اس لیے لگایا جا رہا ہے کہ الیکشن قریب ہیں۔"
Published: undefined
بھارت میں مسیحیوں اور ان کی عبادت گاہوں پر شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے حملے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ مسیحیوں کا تاہم کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ان حملوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
Published: undefined
گزشتہ ماہ ہی مسیحی مذہبی رہنماؤں نے بھارتی صدر کو ایک خط لکھ کر ان سے ملک میں مسیحیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں مداخلت کی اپیل کی تھی۔ اس خط کی نقل مدھیہ پردیش کے بی جے پی کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان اور گورنر منگو بھائی پٹیل کو بھی پیش کی گئی تھی۔
Published: undefined
مسیحی رہنماؤں نے اپنے اس خط میں لکھا تھا کہ وشو ہندو پریشد کے ارکان ہونے کا دعویٰ کرنے والے افراد مدھیہ پردیش کے جھابوا ضلع میں تمام مسیحی عبادت گاہوں کو منہدم کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔
Published: undefined
امریکا کے مذہبی آزادیوں سے متعلق کمیشن نے سن 2021 کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں حکومت کے ذریعے ہندو قوم پرستانہ پالیسیوں کو فروغ دیے جانے کے نتیجے میں مذہبی آزادی کی منظم اور سنگین خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔
Published: undefined
بھارت میں مسیحیوں کی ایک تنظیم یونائیٹڈ کرسچن فورم (یو سی ایف) کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف مارچ2020 میں ایک مہینے کے دوران بھارت کی دس ریاستوں میں مسیحیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم 27 واقعات درج کیے گئے تھے۔ ان میں سے سب سے زیادہ یعنی چھ واقعات صرف اتر پردیش میں پیش آئے تھے۔
Published: undefined
جولائی 2021 میں ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی کم از کم 17 تنظیموں نے بھی امریکی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ بھارت میں مسیحیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی زیادتیاں رکوانے کے لیے کارروائی کرے۔
Published: undefined
آل انڈیا کیتھولک یونین کے رہنما جان دیال نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”مسیحیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافے کی وجہ یہ بھی ہے کہ متاثرین کے خلاف ہی جھوٹی رپورٹیں درج کرا دی جاتی ہیں، انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں جبکہ دوسری طرف سنگھ پریوار کے لوگوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جو جی میں آئے کریں۔ انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔‘‘
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined