عوامی جمہوریہ چین میں حال ہی میں سامنے آنے والے گزشتہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملکی آبادی میں بزرگ شہریوں کا تناسب تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور نوجوان شہریوں میں بچے پیدا کرنے کا رجحان بھی بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری میڈیا نے آج پیر اکتیس مئی کے روز بتایا کہ اب حکومت نے ماضی کی 'ون چائلڈ پالیسی‘ میں مزید نرمی کا فیصلہ کیا ہے اور عام جوڑوں کو اب تین بچوں تک کی پیدائش کی قانونی اجازت دے دی گئی ہے۔
Published: undefined
تقریباﹰ چار عشروں تک نافذ رہنے والی 'صرف ایک بچے کی پیدائش کی سرکاری پالیسی‘ اس لیے کافی متنازعہ تھی کہ بیجنگ حکومت نے اس پر عمل درآمد کے لیے سخت ترین ضوابط متعارف کر رکھے تھے۔ یہ ضابطے دنیا میں اپنی نوعیت کے سخت ترین فیملی پلاننگ ضوابط تصور کیے جاتے تھے۔
Published: undefined
2016ء میں حکومت نے پہلی مرتبہ اس پالیسی میں نرمی کی اور شادی شدہ جوڑوں کو دو بچوں تک کی پیدائش کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اب لیکن ان ضوابط میں مزید نرمی کرتے ہوئے عام جوڑوں کو تین بچوں تک کی پیدائش کی اجازت دے دی گئی ہے۔
Published: undefined
بیجنگ سے ملنے والی مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق چینی حکومت نے اب عام شہریوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی قانونی اجازت دینے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ آئندہ برسوں اور عشروں میں کم تر شرح پیدائش اور معاشرے میں بزرگ شہریوں کے تناسب میں بہت زیادہ اضافے کے نتیجے میں افراد قوت میں کمی اور ممکنہ اقتصادی جمود سے بچا جا سکے۔
Published: undefined
بیجنگ حکومت نے یہ فیصلہ اس لیے بھی کیا کہ چین کے قومی دفتر شماریات کے گزشتہ ماہ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2020ء میں پورے ملک میں صرف 12 ملین بچے پیدا ہوئے تھے اور نومولود بچوں کی یہ مجموعی سالانہ تعداد ریکارڈ حد تک کم تھی۔
Published: undefined
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا نے پیر کے روز بتایا کیہ ملکی صدر شی جن پنگ کی صدارت میں ملک میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ اختیاراتی پولٹ بیورو کی قیادت کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملکی آبادی کے بوڑھا ہوتے جانے کا حل یہ ہے کہ عام شادی شدہ جوڑوں کو فی کس تین بچوں تک کی پیدائش کی اجازت دے دی جائے۔
Published: undefined
پولٹ بیورو نے یہ فیصلہ اس لیے بھی کیا کہ چین میں عام شہریوں میں اوسط شرح افزائش صرف 1.3 ہے اور اس شرح سے ملکی آبادی میں استحکام کی منزل کا حصول یقینی بنانا ناممکن ہے۔
Published: undefined
چین میں مردم شماری ہر دس سال بعد ہوتی ہے اور 2020ء کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملکی آبادی 1.41 بلین یا ایک ارب اکتالیس کروڑ بنتی تھی۔ مگر اس حوالے سے تشویش کی بات یہ تھی کہ گزشتہ برس قومی آبادی میں جو اضافہ ہوا، وہ 1960 کی دہائی کے بعد سے آج تک کا سب سے کم سالانہ اضافہ تھا۔
Published: undefined
آبادی سے متعلقہ امور کے چینی ماہرین کے مطابق اگر ملکی آبادی میں اضافے کی کامیاب کوششیں اب بھی نا کی گئیں، تو آئندہ چند عشروں میں روزگار کی ملکی منڈی میں کارکنوں کی کمی بڑھ کر بیسیوں ملین تک پہنچ جائے گی۔
Published: undefined
اسی پیش رفت کا دوسرا منفی پہلو یہ ہو گا کہ 2050ء تک ممکنہ طور پر چین کی مجموعی آبادی میں پینش یافتہ بزرگ شہریوں کا تناسب بڑھ کر ایک تہائی تک ہو جائے گا۔ تب ریاست کو ان کروڑوں بزرگ شہریوں کو پینشنیں بھی ادا کرنا ہوں گی اور ان کی طبی دیکھ بھال کا انتظام بھی کرنا ہو گا۔
Published: undefined
ماہرین کے مطابق مستقبل کے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے معاشرے کو جو افرادی قوت درکار ہو گی، اسی کو یقینی بنانے کے لیے اب حکومت نے عام جوڑوں کو تین بچے پیدا کرنے کی قانونی اجازت دی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined