سماج

کیا یمن کے حوثی مشرق وسطی کے لیے ایک نیا خطرہ ہو سکتے ہیں؟

ماہرین کا ماننا ہے کہ حوثیوں کے حالیہ حملے اسرائیل کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہیں، لیکن ساتھ ہی انہوں نے ان کی عسکری صلاحیت کے حوالے سے فکرمندی کا اظہار بھی کیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس

 

ماہرین حوثیوں کے حالیہ حملوں کو اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں گردانتے، لیکن وہ اس باغی گروپ کی عسکری صلاحیت کے حوالے سے تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ حال ہی میں یمن کے حوثی باغیوں نے اسرائیل کے جنوبی شہر ایلات کو کم از کم تین بار فضائی حملوں کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ لیکن اسرائیل نے اپنے دفاعی نظام کے ذریعے ان ڈرون اور میزائل حملوں کو ناکام بنا دیا۔

Published: undefined

حوثی باغیوں کی جانب سے یہ حملے اسرائیل اور عسکریت پسند تنظیم حماس کے درمیان جاری ایک تنازعے کے دوران کیے گئے، جس کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے کے بعد ہوا تھا۔ اس تمام تناظر میں حوثی باغیوں کے حالیہ حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ عسکری لحاظ سے ان میں سے کسی بھی حملے کو کامیاب تصور نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی خیال ہے کہ ان حملوں کی کامیابی حوثی باغیوں کے لیے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔

Published: undefined

لندن میں مقیم یمن اور مشرق وسطی کے ماہر میتھیو ہیجز اس حوالے سے کہتے ہیں، "حوثی باغیوں کے حالیہ حملے اسرائیل کے لیے محض علامتی خطرے کے مظہر ہیں۔" ان کے خیال میں حوثیوں کے حالیہ حملے اسرائیل کے لیے زیادہ خطرے کا باعث بھی نہیں ہیں، اور ایسے میں اسرائیل کے جوابی کارروائی کے امکانات کم ہیں۔

Published: undefined

جہاں ایک طرف ماہرین کا یہ تبصرہ ہے وہیں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس ہفتے اپنے مشرق وسطیٰ کے دورے کے آغاز سے پہلے یہ بیان دیا تھا کہ وہ حوثی باغیوں اور ایران نواز شیعہ تنظیم حزب اللہ کے اسرائیل پر حملوں کے بعد اسرائیل اور حماس کے تنازعے کو مزید بڑھنے سے روکنے کی کوشش کریں گے۔

Published: undefined

اور اس وقت یمن ویسے بھی ایک نئے محاذ کے لیے تیار نہیں۔ سن 2014 میں حوثیوں کے اس وقت کی یمنی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے یمن کو نو سال سے مسلسل خانہ جنگی کا سامنا ہے، جس نے وہاں کے سیاسی منظر نامے کو منتشر کر دیا ہے اور انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچایا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں سالوں پر محیط یہ تنازعہ، جسے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک پراکسی جنگ گردانا جاتا ہے، دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کا باعث بھی بنا ہے۔

Published: undefined

میتھیو ہیجز کی حوثیوں کے حوالے سے یہ رائے بھی ہے کہ جہاں ان کا ایک مقصد "یمنی عوام کو فلسطین کی آزادی کے لیے ملکی سطح پر متحد کرنا ہے" وہیں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ حوثیوں کے سبب خطے میں عدم تحفظ اور عدم استحکام بڑھے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حوثی خود کو متحدہ عرب عمارات، سعودی عرب اور بحرین جیسی ان عرب حکومتوں سے الگ اور مختلف دکھانا چاہتے ہیں جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے ہیں یا ایسی کوشش کی ہے۔

Published: undefined

میتھیو ہیجز کہتے ہیں کہ اسرائیل پر حملے کر کے "حوثی خطے میں دیگر مسلم کمیونٹیز پر یہ دباؤ بھی ڈالنا چاہتے ہیں کہ وہ ایک پین اسلامک بیانیے کے ساتھ ہم آہنگ ہوں، جس کے تحت حوثی اسرائیل کے مسلمانوں پر حملوں کا جواب دے رہے ہیں اور اس مطالبے کی قیادت بھی کر رہے ہیں کہ تمام مسلمانوں کو اسرائیل پر حملہ کرنے کی ضرورت ہے"۔

Published: undefined

لیکن حوثیوں کی عسکری صلاحیت کے حوالے سے میتھیو ہیجز کا دعویٰ ہے کہ ایران کے 2015 ء سے اس گروپ کے بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز میں بھاری سرمایہ کاری کے باوجود ان کے پاس ایران کے دیگر پراکسیوں کے جیسی ہتھیاروں کی سپلائی چین اب بھی نہیں ہے اور اس طرح کے آپریشنز کرنے کی ان کی طویل مدتی صلاحیت کافی محدود ہے۔

Published: undefined

تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حوثیوں نے انمینڈ آبدوز میزائلوں کا استعمال شروع کر دیا ہے، یعنی وہ آبدوز میزائل جن کو چلانے کے لیے انسانی عملے کی ضرورت نہیں اور ''اس سے اسرائیل اور مغربی دنیا کو ممکنہ خطرات کا سامنا ہونے کے تاثر کو بڑھاوا مل سکتا ہے۔‘‘

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined