سماج

اسقاط حمل پر پابندی مسئلے کا حل نہیں

عین کو جب پتہ چلا کہ وہ حاملہ ہو گئی تو پہلا خیال ہی اس کے ذہن میں یہ آیا کہ وہ اس بچے کو جنم نہیں دے گی اور اسقاط حمل کرا لے گی۔ وہ ایک نئی زندگی کو عذاب میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی۔

اسقاط حمل پر پابندی مسئلے کا حل نہیں
اسقاط حمل پر پابندی مسئلے کا حل نہیں 

عین کی عمر ستائیس سال تھی۔ وہ گزشتہ برس ستمبر میں حاملہ ہوئی تھی۔ وہ گھریلو تشدد کی ایک منہ بولتی مثال تھی۔ اس کا شوہر اسے مارتا پیٹتا تھا جبکہ گھریلو ناچاقی اس کے لیے سوہان روح بن چکی تھی۔

Published: undefined

براعظم افریقہ کے ملک کینیا کی باسی عین مزید ظلم سہنا نہیں چاہتی تھی۔ تین بچوں کی ماں نے بہت ظلم سہا جبکہ اس کے شوہر کے ایک دوسری خاتون کے ساتھ جنسی تعلقات بھی ہیں، جو عین کے لیے ناقابل برداشت تھے۔

Published: undefined

عین کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں وہ ایک نیا بچہ اس دنیا میں نہیں لانا چاہتی۔ اس کے بقول بھوک، غربت، ناچاقی اور تشدد ایسے عوامل ہیں، جو اس کے نئے بچے کو بھی نگل لیں گے۔ یہ تمام باتیں عین کی ایک دوست نے خبر رساں ادارے تھومس روئٹز فاؤنڈیشن کو بتائیں۔

Published: undefined

کینیا ایک ایسا ملک ہے، جہاں اسقاط حمل پر قانونی طور پر پابندی ہے۔ تاہم جو خواتین ماں نہیں بننا چاہتیں، وہ غیر قانونی طریقے سے اسقاط حمل کراتی ہیں تاہم اس طرح یہ عمل طبی لحاظ سے ماں کے لیے خطرناک ہو جاتا ہے۔

Published: undefined

اس کے علاوہ جو خواتین اسقاط حمل کراتی ہیں، وہ معاشرتی سطح پر ایک بری خاتون قرار دے دی جاتی ہیں۔ یوں وہ ایک اچھی خاتون ہونے کا اعزاز کھو دیتی ہیں، جس سے وہ نفسیاتی اور دیگر سماجی مسائل کا شکار بھی ہو سکتی ہیں۔

Published: undefined

عین نے ان تمام تر پابندیوں کے باوجود گولیاں کھا کر اپنا حمل گرانا چاہا۔ اس نے ایک ایسے میڈیکل اسٹور سے یہ گولیاں حاصل کی تھیں، جو رجسٹرڈ نہیں تھا۔ تاہم عین کے مسائل اتنے زیادہ تھے کہ اس نے کچھ نہ سوچا کیونکہ وہ ایک نئے بچے کو دنیاوی عذاب میں مبتلا کرنے کا باعث نہیں بننا چاہتی تھی۔

Published: undefined

شاید عین کے پاس کوئی راستہ نہ تھا لیکن اگر کینیا میں اسقاط حمل کو قانونی تحفظ حاصل ہوتا اور ضرروت مند خواتین کو یہ سہولیات سرکاری سطح پر یا نجی سیکٹر کی طرف سے مہیا کی جا رہی ہوتی تو شاید کہانی کچھ اور ہوتی۔ لیکن ایسا نہ تھا۔

Published: undefined

عین کی ایک دوست نے بتایا کہ جب اس نے اسقاط حمل کی گولیاں کھائیں تو اس کی طبعیت بگڑ گئی اور علاج کی سہولیات نہ ہونے کے باعث وہ کچھ دن بعد ہی ہلاک ہو گئی۔

Published: undefined

کینیا ہی نہیں دنیا کے کئی ایسے ممالک ہیں، جہاں اسقاط حمل پر پابندی ہے۔ زیادہ تر ممالک میں اس عمل کو ایک ''گناہ‘‘ سمجھا جاتا ہے، اس لیے وہاں مذہبی حوالوں سے اسقاط حمل پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یوں دنیا بھر میں چھپ کر اسقاط حمل کرانے کی کوشش میں مر جانے والی خواتین کی تعداد بھی مخفی ہی رہ جاتی ہے۔

Published: undefined

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اسقاط حمل پر پابندی کے باعث دنیا بھر میں حاملہ خواتین کی اموات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اگر اس حوالے سے فوری ایکشن نہ لیا گیا تو صورتحال ابتر ہو سکتی ہے۔ بالخصوص اگر امریکہ میں بھی ایسا ہی ہوا تو دیگر کئی ممالک کے لیے یہ ایک مثال بھی بن سکتا ہے۔

Published: undefined

امریکی سپریم کورٹ ایک ایسے کیس کے حوالے سے فیصلہ سنانے والی ہے، جس کے تحت امریکہ میں ملگ گیر سطح پر اسقاط حمل کو قانونی تحفظ ممکن ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکنان نے خبردار کیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے تحت اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تو عین کی طرح امریکا میں ہزاروں خواتین موت کے منہ میں جا سکتی ہیں۔

Published: undefined

اسقاط حمل کے حامیوں کے مطابق اس عمل کو آسان اور محفوظ بنانا چاہیے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ پابندیاں عائد کر کے کسی کو حمل گرانے سے روکا جا سکتا ہے لیکن ان حالات میں حاملہ خواتین کی غیر محفوظ اسقاط حمل کی کوشش میں جان ضرور جا سکتی ہے۔ دنیا کے چھبیس ممالک میں اسقاط حمل پر مکمل پابندی ہے، جن میں مصر، فلپائن اور مڈغاسکر جیسے ممالک بھی شامل ہیں۔

Published: undefined

دنیا کے پچاس ممالک میں حمل گرانے کی اجازت صرف اسی وقت دی جا سکتی ہے، جب ماں کی صحت کو خطرات کا سامنا ہو۔ پاکستان بھی انہی ممالک کی فہرست میں آتا ہے۔ ان ممالک میں ریپ، کسی قریبی رشتہ دار یا اجتماعی زیادتی کا نشانہ بن کر حاملہ ہونے والی خاتون کو بھی اسقاط حمل کی باقاعدہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

Published: undefined

بہت سے ممالک میں اسقاط حمل کرانے والی خواتین اور طبی عملے کے ارکان کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ان سزاؤں کی وجہ سے بچہ پیدا نہ کرنے کی خواہش رکھنے والی لڑکیاں اور خواتین اسقاط حمل کے لیے انتہائی قدم بھی اٹھا لیتی ہیں، جو جان لیوا بھی ہو سکتے ہیں۔

Published: undefined

عالمی ادارہ صحت کے ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال اسقاط حمل کے پچیس ملین غیر محفوظ کیس ہوتے ہیں جبکہ کم ازکم ہر برس اس دوران انتالیس ہزار خواتین اور لڑکیاں ہلاک ہو جاتی ہیں۔

Published: undefined

ان میں سے زیادہ تر ہلاکتیں ایسی خواتین کی ہوتی ہیں، جو غربت کا شکار ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق ایسی سالانہ اموات میں افریقہ سر فہرست ہے۔، جہاں اسقاط حمل کروانے والی ساٹھ فیصد خواتین غیرمحفوظ طریقوں سے اسقاط حمل کرانے کی کوشش میں ماری جاتی ہیں۔ ایشیائی ممالک میں ہونے والی ایسی اموات کی شرح تیس فیصد بنتی ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined