کچھ عرب ممالک میں حکومتیں اختلاف رائے کو دبانے اور آزادی اظہار رائے کو روکنے کے لیے ان قوانین کا تیزی سے غلط استعمال کر رہی ہیں۔ تازہ ترین مثال شام ہے، جہاں صدر بشار الاسد کی حکومت نے اپریل میں اپنے سائبر کرائم قوانین کو اپ ڈیٹ کیا۔ نیا ترمیم شدہ قانون 20/2022 صدر، ریاست اور آئین پر آن لائن اور آف لائن تنقید کو ہدف بناتا ہے۔
Published: undefined
لندن میں مقیم اٹارنی اور کنگز کالج میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر برن ہارڈ مائیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''شام نے آن لائن تقریر یا اظہار خیال کو مجرمانہ فعل قرار دے دیا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ریاست کے 'وقار' کو نقصان پہنچا کر حکومت کی اتھارٹی کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔‘‘
Published: undefined
قانون صرف مبہم طور پر سائبر کرائم کے جرائم کی تعریف کرتا ہے، لیکن سزاؤں اور سزا میں زبردست اضافہ کر دیا گیا ہے۔ شام کی خبر رساں ایجنسی SANA کی رپورٹ کے مطابق ایسے جرائم کی سزا اب 15 سال تک قید سے لے کر 15 ملین شامی پاؤنڈ تک جرمانہ ہے، جو تقریباً 5,900 ڈالر بنتے ہیں۔
Published: undefined
خلیجی مرکز برائے انسانی حقوق (GCHR) نے ایک بیان میں لکھا ہے، ''اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شق مکمل طور پر غیر واضح عنوانات کے تحت مختلف آراء کو خاموش کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے۔ اب کسی بھی ڈیجیٹل مواد پر نظریاتی طور پر حکومت کا تختہ الٹنے یا تبدیلی کا باعث بننے یا اس کی حوصلہ افزائی کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔‘‘
Published: undefined
شام کے عوام کے لیے اس کا مطلب ہے کہ مستقبل کے کریک ڈاؤن اب پہلے سے کہیں زیادہ وسیع پیمانے پر ہوں گے اور وہ بھی قانونی کے تحت۔
Published: undefined
اسی طرح کے حربے مصر میں بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس سال مارچ میں اسکندریہ کی اقتصادی عدالت نے گلوکاروں ہامو بیکا اور عمر کمال کو یو ٹیوب ویڈیو میں گانے اور رقص کرنے پر سائبر کرائم قوانین کے تحت 'خاندانی اقدار کی خلاف ورزی‘ کے مبہم الزامات پر جرمانے اور قید کی سزا سنائی۔ ہیومن رائٹس واچ نے اس فیصلے کو 'اظہار رائے کی آزادی کے حق کی خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔
Published: undefined
قانون کے پروفیسر مائیر نے کہا، ''سائبر کرائم قوانین کا اطلاق کرنے سے ریاستیں قانون کی حکمرانی کی آڑ میں آزادانہ اظہار رائے کی مذمت کر سکتی ہیں، جیسا کہ ہم نے سن 2011 میں عرب بہار میں دیکھا، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے ٹویٹر اور فیس بک کو مظاہرین اور 'انقلابیوں‘ کو متحرک کرنے کے لیے بڑے اثر کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘
Published: undefined
صدر عبد الفتاح السیسی کی جانب سے سن 2018 میں ملک میں انسداد سائبر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کرائمز قوانین کی توثیق کے بعد مصری حکام کے پاس پہلے سے ہی آزادی اظہار اور اختلاف رائے کو روکنے کے لیے تقریباً لامحدود اختیارات تھے۔ تاہم جب جنوری سن 2022 میں نام نہاد 'این جی او قانون‘ نافذ ہوا، تو ان کا دائرہ کار مزید وسیع ہو گیا۔
Published: undefined
کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے مطابق، پچھلے سال جیل میں بند صحافیوں کی عالمی درجہ بندی میں مصر تیسرے نمبر پر تھا۔ سلاخوں کے پیچھے 25 رپورٹرز کے ساتھ، مصر صرف چین (50) اور میانمار (26) سے پیچھے ہے۔
Published: undefined
مصر کے پڑوسی سعودی عرب نے اس علاقے میں کچھ بہتری دکھائی ہے۔سن 2021 میں دس صحافیوں کو رہا کیا گیا، جب کہ کسی کو سزا نہیں ملی۔ سعودی عرب سرکاری طور پر اپنے "وژن 2030" اقتصادی اور سماجی اصلاحات کے پروگرام کے فریم ورک کے تحت ملک کو جدید بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے باوجود اس نے آزاد رپورٹنگ کو خاموش کرنے اور تنقیدی آراء کی اشاعت کو روکنے کے لیے طریقے تلاش کیے۔ مخالفوں کو جیل بھیجنے کے لیے ان کے سن 2007 کے سعودی انفارمیشن ٹیکنالوجی کرائمز ایکٹ پر انحصار کرنے کے بجائے، CPJ رپورٹ کرتا ہے کہ حکام انٹرنیٹ بند کرنے اور ہائی ٹیک اسپائی ویئر کے ذریعے نگرانی میں اضافہ کر رہے ہیں۔
Published: undefined
تنظیم نے یہ بھی نوٹ کیا کہ صحافی جمال خاشقجی کے سن 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں ہونے والے قتل کا اثر اب بھی اختلاف رائے کو خاموش کر رہا ہے۔
Published: undefined
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) بھی مشرق وسطیٰ میں مخالفین کے خلاف سائبر کرائمز قوانین کے استعمال میں آگے ہے۔ آئی ٹی کرائمز ایکٹ میں متحدہ عرب امارات میں ہیکنگ، شناخت کی چوری، الیکٹرانک آرمیز اور کریپٹو کرنسیوں کے ساتھ ساتھ رضامندی کے بغیر تصاویر لینے اور افواہیں پھیلانے کے جرمانے شامل ہیں۔
Published: undefined
سائبر کرائم قانون سازی کے لیے پہلا بین الاقوامی معاہدہ، "بوڈاپیسٹ کنونشن"، سن 2004 میں آیا اور صرف 65 ریاستوں نے اس کی توثیق کی۔ ایک تازہ معاہدہ بنانے کے لیے اقوام متحدہ نئی قانون سازی پر زور دے رہی ہے۔ اس معاہدے پر بات چیت جون میں ہو گی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined