سماج

گزر آیا میں چل کے خود پر سے

ضمیر کسی نے نہیں دیکھا مگر ضمیر ہوتا ضرور ہے۔ یہ مطمئن بھی ہوتا ہے، بے چین بھی رہتا ہے، سو بھی جاتا ہے اور کبھی اچانک جاگ بھی پڑتا ہے۔ ضمیر انفرادی بھی ہوتا ہے اور اجتماعی بھی۔

گزر آیا میں چل کے خود پر سے
گزر آیا میں چل کے خود پر سے 

جو مطمئن ضمیر ہے، وہ تو خیر ہے ہی مطمئن۔ مگر جو ضمیر پھانس بن کے دل میں ٹیسیں اٹھاتا رہتا ہے، اس سے نپٹنے کا ایک طریقہ تو یہی ہے کہ اسے ادھر ادھر کی کہانیاں سنا کے تھپک تھپک کے سلا دیا جائے اور اس خود فریبی میں رہا جائے کہ جو کچھ بھی مجھ سے یا ہم سے سرزد ہوا اس کا قصور وار تنہا میں نہیں۔

Published: undefined

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ سامنے والا اپنی غلطی تسلیم کرے نہ کرے آپ سچائی کے ساتھ اپنی وہ غلطیاں، جن کا سامنا آپ خود بھی کرنے سے جھجک رہے ہیں، دل بڑا کر کے تسلیم کر لیں اور اس کانٹے کو ہمیشہ اپنے ذہن سے نکال کے مطمئن ہو کر آگے بڑھ جائیں۔

Published: undefined

مگر ہم میں سے اکثر زندگی بھر اس پلِ صراط سے گزرنے کے بارے میں یہ سوچ سوچ کے ڈرتے رہتے ہیں کہ جانے دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچے۔ حالانکہ دنیا آپ کے بارے میں آپ سے پوچھے بغیر پہلے ہی سے کوئی نہ کوئی رائے قائم کر چکی ہوتی ہے۔ غلطی کا اعتراف کرنے سے اس رائے میں تبدیلی بہت کم آتی ہے۔ دنیا آپ کے عمل کی روشنی میں اپنی رائے بناتی ہے۔

Published: undefined

لیکن جب آپ اپنی کسی انفرادی یا اجتماعی غلطی یا لغزش کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں تو دنیا کے سامنے آپ کا قد بڑھے نہ بڑھے اپنی نگاہوں میں آپ مزید چھوٹے ہونے کی ازیت سے ضرور نجات پا لیتے ہیں۔ بصورتِ دیگر آپ زندگی بھر خود کو صفائیاں پیش کرتے رہتے ہیں۔

Published: undefined

مثلاً جرمنی میں سن 1930 اور سن 1940 کے عشرے میں جو کچھ بھی ہوا۔ جنگِ عظیم کے بعد کا جرمنی چاہتا تو اس کی ہزار تاویلیں پیش کر سکتا تھا۔ مگر جرمنوں نے اس تھکا دینے والی سعیِ لاحاصل میں پڑنے کے بجائے اعتراف کر کے قومی ضمیر بچا لیا اور پھر ہمہ تن تعمیرِ نو کے ضروری کام میں مصروف ہو گئے۔

Published: undefined

جاپانیوں نے بیسویں صدی کے چوتھے عشرے تک کوریا اور شمالی چین پر قبضے کے دوران جو کچھ کیا, اس پر بعد میں آنے والی چند جاپانی حکومتوں نے تھوڑے بہت تاسف کا اظہار تو کیا مگر کھل کے زیادتیوں کا اعتراف نہ کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج تک چین اور کوریا کی قومی نفسیات میں جاپان پھانس کی طرح چبا ہوا ہے۔ جاپان کے ان دونوں ممالک سے اقتصادی و سفارتی تعلقات بظاہر معمول کے مطابق ہیں مگر شیشے کی ایک دیوار بھی حائل ہے۔

Published: undefined

وہ الگ بات ہے کہ جاپان خود بھی دوسری عالمی جنگ میں تباہ ہو گیا اور جاپان بھی امریکہ سے اسی طرح معافی کا منتظر ہے جس طرح کوریا اور چین جاپانی معافی کے انتظار میں ہیں۔

Published: undefined

یہی حالت فرانس کی بھی ہے جس نے الجزائر میں لگ بھگ ڈیڑھ سو سالہ نوآبادیاتی دور اور بالخصوص پچاس کے عشرے میں جو کچھ بھی کیا۔ اس کے ساٹھ برس بعد آج اگرچہ الجزائر اور فرانس کے درمیان بظاہر کوئی خاص کشیدگی نہیں، پھر بھی کسی نہ کسی موقع پر فرانس کی نوآبادیاتی زیادتیوں کا سوال دو طرفہ تعلقات کے پانیوں میں پھولی ہوئی لاش کی طرح بار بار ابھرتا رہتا ہے۔

Published: undefined

برطانیہ اور انڈیا کے مابین گہرے تاریخی تعلقات ہیں لیکن آج بھی برطانیہ سو برس گزرنے کے باوجود جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام پر غیر مشروط معافی مانگنے کی دہلیز سے ایک قدم پیچھے ہی ہے۔

Published: undefined

اس بابت جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی فراست کے سبب قائم ہونے والے سچائی کمیشن نے بین الانسلی تعلقات میں پڑنے والے گہرے کھاؤ کم کرنے میں خاصا اہم کردار ادا کیا اور اس کے بعد کم از کم وہاں کالے اور گورے کے درمیان موجود تاریخی نفرت کو مزید بڑھاوے کا موقع نہ مل سکا۔ افسوس کہ اس مثال کو باقی دنیا اپنانے سے آج تک ہچکچا رہی ہے۔

Published: undefined

معافی مانگنے اور کھلے دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف بزدلی نہیں غیر معمولی بہادری ہے۔ اس ایک فعل سے نہ صرف انفرادی و اجتماعی اعلی ظرفی جھلکتی ہے بلکہ اپنی ذات پر اعتماد کا بھی مظاہرہ ہوتا ہے۔

Published: undefined

گزر آیا میں چل کے خود پر سے

اک بلا تو ٹلی میرے سر سے (جون ایلیا)

Published: undefined

اس مرحلے کے بعد تاریخ کو اپنی مرضی کے مطابق لکھنے اور حقائق گھڑنے کے ازیت ناک کام سے نجات مل جاتی ہے۔ مگر اس کے لیے جو غیر معمولی بلوغت درکار ہے شاید انسان انفرادی و اجتماعی سطح پر ابھی اس منزل تک نہیں پہنچا۔ یہ احساس البتہ پہلے کے کسی بھی زمانے سے زیادہ پذیرائی پا رہا ہے کہ اعتراف میں ہی نجات ہے۔

Published: undefined

یہ جاننے کے لیے کوئی غیر معمولی مورخ ہونا ضروری نہیں کہ سن 1947 میں مسلمان، سکھ اور ہندو بڑی تعداد میں مرے اور ایک دوسرے کو مارا بھی۔ چنانچہ پھر درسی کتابوں میں اس بات پر ضرورت سے زور دینے کی کیا ضرورت ہے کہ صرف ہندو یا سکھ ہی اجڑے یا صرف مسلمان ہی مرے۔

Published: undefined

مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے اکیاون برس ہو گئے۔ نصف صدی بعد بھی سبکدوش ہونے والے پاکستانی سپاہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو ازخود یہ بحث کیوں اٹھانا پڑ گئی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی ذمہ داری فوج پر نہیں سیاسی طبقے پر عائد ہوتی ہے ( حالانکہ ملک میں مارشل لا حکومت تھی)۔

Published: undefined

اگر درسی کتابوں میں بنگالیوں کے غیر بنگالیوں پر مظالم کا تذکرہ ٹھیک ہے تو بنگالیوں پر ریاستی مظالم سے یکسر انکار کیوں ٹھیک ہے؟ اگر درسی کتابوں میں ملک ٹوٹنے کی ذمہ داری بھارتی سازش کو قرار دیا جاتا ہے تو اس سازش کو ناکام نہ بنانے کے اسباب اور ذمہ داروں کا تذکرہ کرنے سے کیوں ہچکچایا جاتا ہے؟

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined