سماج

افغانستان میں اب اقوام متحدہ کے خواتین عملے پر بھی پابندی

اقوام متحدہ کی ملازم کے طور پر کام کرنے والی تقریباً 400 خواتین پر طالبان نے بین الحکومتی تنظیم کے لیے کام کرنے پر پابندی عائد کردی۔ اقوام متحدہ میں کام کرنے والی خواتین اب تک پابندی سے مستثنٰی تھیں۔

افغانستان میں اب اقوام متحدہ کے خواتین عملے پر بھی پابندی
افغانستان میں اب اقوام متحدہ کے خواتین عملے پر بھی پابندی 

اقوام متحدہ نے منگل کے روز کہا کہ طالبان نے غیر سرکاری تنظیموں کے لیے کام کرنے پر افغان خواتین پر پابندی میں توسیع کرتے ہوئے ملک میں اقوام متحدہ کے مشن کو بھی اس میں شامل کرلیا۔ طالبان کی جانب سے پابندی کا عندیہ دیے جانے کے بعد اقوام متحدہ نے افغانستان میں اپنے عملے کے تقریباً3300 ارکان کو اگلے 48 گھنٹوں تک کام پر نہیں آنے کے لیے کہا ہے۔

Published: undefined

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے ترجمان اسٹیفن دوجارک نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز میں میڈیا سے بات چیت کے دوران کہا کہ افغانستان میں ان کی خواتین عملے کو "عملاً حکام کی طرف سے ایک حکم" موصول ہوا ہے۔

Published: undefined

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے عہدیدار کابل میں طالبان حکام سے بدھ کے روز ملاقات کریں گے اور "کچھ وضاحت طلب کریں گے۔"

Published: undefined

ایسی پابندی ناقابل قبول ہے، اقوام متحدہ

طالبان نے دسمبر میں تمام غیر ملکی اور ملکی این جی اوزکو اپنی خواتین ملازمین کو کام کرنے سے روک دینے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اقوام متحدہ کو اس اصول سے اب تک مستثنٰی رکھا گیا تھا۔ افغانستان میں اقوام متحدہ مشن (یو این اے ایم اے) نے منگل کے روز بتایا کہ اس کی خواتین عملے کو ننگرہار صوبے میں کام پر جانے سے روک دیا گیا۔

Published: undefined

ترجمان کے مطابق گوٹیرش کا کہنا تھا کہ اس طرح کی کوئی بھی پابندی "ناقابل قبول اور واضح طورپر ناقابل فہم" ہو گی۔ انہوں نے کہا "اس طرح کے احکامات، جیسا کہ ہم نے آج دیکھا، خواتین کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور عدم امتیاز کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔"

Published: undefined

دوجارک نے بتایا کہ اقوام متحدہ اس وقت افغانستان میں تقریباً23 ملین افراد کو انسانی امداد فراہم کر رہا ہے جو ملک کی آبادی کا نصف سے زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کا عملہ ملک میں زمینی سطح پر امدادی کارروائیوں، بالخصوص دوسری ضرورت مند خواتین کی شناخت کے لیے بہت اہم ہے۔ گوٹیرش نے ننگر ہار میں پابندی کی بھی مذمت کی اور ٹویٹ کیا کہ یہ پابندی "ضرورت مند لوگوں تک جان بچانے والی امداد پہنچانے کی ہماری صلاحیت کو لامحالہ نقصان پہنچائے گی۔"

Published: undefined

طالبان کا یہ اقدام "صنفی سزا" کے مترادف

طالبان نے اگست 2021 میں افغانستان میں امریکی قیادت میں بین الاقوامی فورسز کے انخلاء کے بعد دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ تب سے طالبان قیادت نے اسلام کی سخت تشریح مسلط کر رکھی ہے۔ نوعمر لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول جانے سے روک دیا گیا ہے جب کہ خواتین کے یونیورسٹیوں میں جانے پر پابندی لگادی گئی ہے۔

Published: undefined

خواتین سرکاری ملازمین کو ملازمت سے نکال دیا گیا ہے جب کہ تمام خواتین کو کسی محرم مرد کے بغیر سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے اور گھر سے باہر نکلنے کے لیے برقع پہننا ضروری ہے۔ خواتین کو پارکوں یا باغات میں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔

Published: undefined

افغانستان میں انسانی حقوق کے متعلق امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ بینیٹ نے جنیوا میں ایک حالیہ تقریر میں کہا،"خواتین پر طالبان کے اقدامات "صنفی سزا" کے مترادف ہوسکتے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined