سماج

طالبان کی پیش قدمی سے افغان خواتین خوفزدہ

کابل کی رہائشی مریم عطائی کے بقول اگر طالبان ملکی دارالحکومت پر قبضہ کر لیتے ہیں تو ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ طالبان کی پیش قدمی پر افغان خواتین اپنی سلامتی سے متعلق خدشات کا شکار ہو چکی ہیں۔

طالبان کے افغانستان میں خواتین کا کیا بنے گا؟
طالبان کے افغانستان میں خواتین کا کیا بنے گا؟ 

افغانستان میں انسانی حقوق کی کارکن مریم عطائی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا ہے کہ کابل پر طالبان کے قبضے کے نتیجے میں ان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ بیس برسوں سے خواتین کے حقوق کا علم بلند کرتی رہی ہیں، جو طالبان کے انتہا پسندانہ نظریات کے برخلاف ہے۔

Published: undefined

مریم نے اس خوف کا اظہار کیا کہ طالبان دارالحکومت کا کنٹرول سنھبالنے کے بعد سزا کے طور پر انہیں جان سے بھی مار سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک دوبارہ سن انیس سو چھیانوے والے حالات میں جا سکتا ہے، جب طالبان کے انتہا پسندانہ دور میں بالخصوص خواتین کو سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔

Published: undefined

طالبان کے دور میں خواتین کی زندگی کیسی تھی؟

سن انیس سو چھیانوے تا سن دو ہزار افغانستان میں طالبان کو اقتدار حاصل رہا۔ اس دوران خواتین کے سخت قوانین وضع کیے گئے تھے۔ نہ صرف انہیں کام سے روک دیا گیا تھا بلکہ نامحرم سے بات تک نہیں کر سکتی تھیں۔ محرم کے ساتھ گھر سے باہر جاتے وقت ان کے لیے برقع لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔

Published: undefined

اس دور میں اگر خواتین ان سخت گیر ضوابط سے روگرانی کرتیں تو انہیں سخت سزائیں دی جاتی تھیں۔ ان میں قید، تشدد حتیٰ کہ جان سے مار دینے کی سزا بھی شامل تھی۔ طالبان کے دور میں خواتین کو سر عام کوڑے بھی مارے جاتے تھے۔

Published: undefined

مریم عطائی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں مزید کہا کہ جن علاقوں میں طالبان قابض ہو چکے ہیں، وہاں خواتین کے لیے حالات انتہائی ابتر ہوتے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک پر کنٹرول حاصل کرنے کی لڑائی کی وجہ سے خواتین بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔

Published: undefined

خبر رساں ادارے روئٹرز نے رپورٹ کیا تھا کہ جولائی کے آغاز پر جب طالبان نے قندھار شہر پر قبضہ کیا تو وہاں عزیز بینک میں ملازم نو خواتین کو وہاں سے فوری طور پر نکل جانے کا حکم دے دیا تھا۔ عطائی کو خدشہ ہے کہ ملکی حالات واپس اسی طرف لوٹ رہے ہیں، جب وہاں طالبان کا قبضہ تھا۔

Published: undefined

ورکنگ خواتین کا خوف

کابل میں امریکن یونیورسٹی میں پروفیسر وکٹوریہ فونٹین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ ان تازہ واقعات کی وجہ سے بالخصوص افغان خواتین کا حوصلہ بری طرح ٹوٹا ہے۔ طالبان کے پانچ سالہ دور اقتدار میں افغان بچیوں کے تعلیم حاصل کرنے پر بھی پابندی عائد رہی تھی۔

Published: undefined

فونٹین نے کہا، ''یہ خواتین اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ بطور اسٹوڈنٹ یا معاشرے کے لیے کام کرنے کے حوالے سے یہ خواتین شدید تحفظات کا شکار ہو چکی ہیں۔

Published: undefined

اگرچہ سن دو ہزار بیس میں ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ اب بچیوں کی تعلیم کے مخالف نہیں لیکن زمینی حقائق کی روشنی میں ایسے بہت ہی کم طالبان ہیں، جو بچیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ طالبان کے دور میں لڑکیوں کی زبردستی شادی کر دی جاتی تھی۔

Published: undefined

اب ایک مرتبہ پھر طالبان کے اقتدار میں آنے کے امکانات میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ طالبان کے افغانستان میں خواتین کے لیے صورتحال دوبارہ خراب ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے جمعے کے دن ہی کہا کہ وہ طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں عائد کی جانے والی پابندیوں پر دھچکے کا شکار ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined