سماجی

کیوں نہ کہوں: محبت کی شمع سے نفرت کے اندھیرے کو مٹانے کا وقت آگیا ہے... سید خرم رضا

نومنتخب صدر کو چاہیے کہ جو انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ وہ امید، ایمانداری اور شائستگی کو فروغ دیں گے۔ ان کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ پوری دنیا میں امن، محبت اور بھائی چارے کے فروغ کے لئے کام کریں۔

تصویر گیٹی ایمج
تصویر گیٹی ایمج 

کئی ماہ سے جن انتخابات پر پوری دنیا کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں وہ انتخابات بھی ہوگئے اور اس کے نتیجے بھی آگئے۔ نتیجے آنے کے بعد خوشی، غم اور غصہ کی شکل میں پوری دنیا میں لوگ اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ نتیجے لوگوں کے لئے سکون اور بے چینی دونوں لے کر آئے ہیں۔ سکون اس لئے کہ چار سال سے جس شور کو سننے سے ان میں نہ امیدی اور مایوسی پیدا ہوئی تھی اس کے ختم ہونے پر سکون لازمی ہے، بے چینی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ پہلی بڑی وجہ یہ ہے کہ جس حکمراں کی پالیسیوں کو لے کر انہوں نےغیر یقینی کی صورتحال میں چار سال گزارے ہیں وہ اب اپنی شکست کو کس طرح لے گا۔ دوسری وجہ یہ ہےکہ جس بڑی امید سے انہوں نے نئے صدر پر اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ کہاں تک ان کی امیدوں پر پورا اترے گا۔

Published: 08 Nov 2020, 7:11 PM IST

جس حکمراں نے امریکہ کے ایک طبقہ کی روز اول سے تذلیل کی ہو اور کورونا جیسی اس طبی وبا کو کچھ سمجھا ہی نہ ہو، جس کے سب سے زیادہ مریض امریکہ میں ہیں اور سب سے زیادہ اموات بھی وہیں ہوئی ہیں۔ اس حکمراں نے ہم ہندوستانیوں کو بھی ذہنی طور پر پریشان کرنے سے نہیں چھوڑا، جبکہ ہمارے وزیر اعظم نے اس حکمراں کے لئے امریکہ میں ہندوستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے اس کے لئے انتخابی تشہیر کی اور کہا کہ ’اب کی بار ٹرمپ سرکار‘۔ خارجہ امور کے ماہرین جانتے ہیں کہ اس ملک کے منتخب صدر یا وزیر اعظم سے ضرورت بھر سے زیادہ روابط نہیں رکھے جاتے، جس ملک میں انتخابات ہونے ہوں، لیکن ہم نے انتخابی سال میں اس حکمراں کو اپنے ملک میں مدعو کیا اور اس حکمراں نے بدلے میں ہمیں کیا دیا، اس نے امریکہ میں نوکری کر رہے یا تعلیم حاصل کر رہے ہندوستانیوں کو ویزا قوانین کا خوف دکھایا۔

Published: 08 Nov 2020, 7:11 PM IST

ویسے تو چار سال پہلے جب اس حکمراں کا انتخاب ہوا تھا اس وقت بھی امریکہ کی اکثریت نے اس کے خلاف ہی ووٹ دیا تھا لیکن امریکی نظام میں امریکی رائے دہندگان کی صدر کے حق میں رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، کیونکہ وہاں صدر کا انتخاب الیکٹورل کالج کرتا ہے۔ چار سال پرکھنے کے بعد امریکی عوام نے الیکٹورل کالج میں بھی اور پاپولر ووٹ میں بھی زبردست شکست دی۔ تبدیلی کے لئے امریکی عوام کے غصہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نو منتخب صدر سیاسی اعتبار سے کتنے ہی تجربہ کار کیوں نہ ہوں، لیکن ان کے حق میں ووٹ دینے کے لئے سوائے موجودہ حکمراں کو ہٹانے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ نومنتخب صدر امریکہ کے اب تک کے سب سے زیادہ عمر والے صدر ہیں، یہ وہی امیدوار ہیں جو پہلے بھی دو مرتبہ امریکی صدارت کے لئے قسمت آزما چکے ہیں۔ یہی نہیں وہ براک اوبامہ یا ہلیری کلنٹن کی طرح اچھے مقرر بھی نہیں ہیں، لیکن پھر بھی انہوں نے امریکی انتخابات میں اب تک سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے صدر ہونے کی تاریخ رقم کی ہے اور یہ اپنے آپ میں بہت کچھ بیان کرتا ہے۔

Published: 08 Nov 2020, 7:11 PM IST

نو منتخب صدر کے سامنے مسائل منہ پھاڑے کھڑے ہیں اور ان کے لئے یہ راہ آسان نہیں ہے۔ کورونا وبا ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کے ساتھ ملک کی معیشت جڑی ہوئی ہے۔ داخلی مسائل کے ساتھ جن خارجی مسائل کا سامنا امریکہ کو ہے اس پر بھی فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ گزشتہ چار سالوں میں امریکہ نے بہت سارے دوست کھوئے ہیں۔ بہرحال یہ اتنے بڑے مسئلہ نہیں ہیں کیونکہ نومنتخب صدر کے پاس اس کی مہارت بھی ہے اور دنیا کے کئی صدور اور وزراء اعظم سے ان کے ذاتی تعلقات بھی ہیں۔

Published: 08 Nov 2020, 7:11 PM IST

امریکی انتخابات سے ایک سبق ہمارے لئے اور پوری دنیا کے لئے بھی ہے۔ ہمارے لئے سبق یہ ہے کہ ہمیں کوئی حق نہیں ہے کہ ہم دوسرے ملک کے انتخابات میں مداخلت کریں اور وہاں کے شہریوں سے کسی ایک حکمراں اور پارٹی کی وکالت کریں۔ یہ وہاں کا داخلی مسئلہ ہے اور کل کوئی اگر ہمارے ملک کے داخلی مسائل میں کسی قائد کی وکالت کرتا ہے یاکسی کی مخالفت کرتا ہے تو ہمارا غصہ ہونا لازمی اور واجب ہے۔ دوسرا یہ کہ اگر ہم کسی دوسرے ملک کے کسی ایک حکمراں اور پارٹی کے حق میں بیان دیتے ہیں اور وہ انتخابات میں ہار جاتا ہے تو آنے والاحکمراں روز اول سے ہمیں اپنا دشمن تصور کرے گا۔ ہماری قیادت کو ایسی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

Published: 08 Nov 2020, 7:11 PM IST

دنیا کے لئے پیغام یہ ہے کہ نفرت کی زندگی بہت مختصر ہوتی ہے اور محبت و پیار کی زندگی بہت لمبی اور مضبوط ہوتی ہے۔ امریکہ میں اپنے اور باہری، گورے اور کالے کی بنیاد پر سماج کو بانٹنے میں کوئی حکمراں ایک مرتبہ تو کامیاب ہو جاتا ہے لیکن نفرت زیادہ دن کی مہمان نہیں ہوتی۔ لوگ مسائل کا حل چاہتے ہیں ان کو روز گار اور سکون چاہیے ہوتا ہے، نفرت اور تفریق سے کسی کا پیٹ نہیں بھرتا۔ دنیا کے کسی ملک کی حکومت نفرت کے سہارے نہیں چل سکتی۔ نفرت کا انجام سب کے سامنے ہے کہ عوام نفرت بیچنے والے کے مخالف کو سب سے زیادہ ووٹ دیتے ہیں اور اس نفرت بیچنے والے کی شکست پر دنیا کی ایک بڑی اکثریت جشن مناتی ہے۔

Published: 08 Nov 2020, 7:11 PM IST

نو منتخب صدر کو چاہیے کہ جو انہوں نے جیتنے کے بعد اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ وہ امید، ایمانداری اور شائستگی کو فروغ دیں گے۔ ان کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ پوری دنیا میں امن، محبت اور بھائی چارے کے فروغ کے لئے کام کریں۔ اب محبت کی شمع سے نفرت کے اندھیرے کو مٹانےکا وقت آ گیا ہے۔

Published: 08 Nov 2020, 7:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 08 Nov 2020, 7:11 PM IST