سماجی

معاف کرنا مسلمان سمجھ کر پیٹ دیا تھا!... سہیل انجم

یوں تو پولیس میں مسلم دشمنی ایک طویل عرصے سے موجود ہے لیکن جب سے مرکز میں موجودہ حکومت آئی ہے اس رجحان میں بہت زیادہ اضافہ وہ گیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

”ہاں جی کہاں جا رہے ہو؟“

”جی اسپتال جا رہا ہوں“۔

”کیوں اسپتال کیوں جا رہے ہو؟“

”جی میں شوگر اور بلڈ پریشر کا پرانا مریض ہوں، مجھے دواؤں کی اشد ضرورت ہے“۔

”تمہیں پتہ نہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے شہر میں پابندیاں نافذ ہیں؟“

”جی پتا ہے لیکن کیاں کروں کہ مجھے دواؤں کی ضرورت ہے، اسی لیے اسپتال جا رہا تھا“۔

”اچھا اگر اپنا بھلا چاہتے ہو تو فوراً واپس جاؤ“۔

”دیکھیے! مجھے تو دوا ہر حال میں لینی ہے ورنہ میری طبیعت بہت خراب ہو جائے گی“۔

”زبان چلاتا ہے“

Published: undefined

اور پھر پولیس والے اس شخص پر ٹوٹ پڑے۔ اس کی بری طرح پٹائی کرنے لگے۔ یہاں تک کہ اس کے کان سے بے تحاشہ خون بہنے لگا۔ اس شخص نے جب پولیس والوں کو دھمکی دی کہ میں وکیل ہوں اور تمہاری اس حرکت کے خلاف قانونی کارروائی کروں گا تب جا کر پولیس والوں نے اسے چھوڑا۔ مگر اس وقت تک اس کی بری طرح پٹائی کی جا چکی تھی۔

Published: undefined

بہر حال اس شخص نے اپنے کسی دوست کو بلایا اور پھر اس کی مدد سے وہ اپنے گھر گیا۔ یہ 23 مارچ کا واقعہ ہے۔ شہر تھا مدھیہ پردیش کا بیتول اور اس شخص کا نام ہے دیپک بندیلے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے جگہ جگہ پابندیاں نافذ تھیں اور بندیلے یہ سوچ کر کہ پولیس راستے میں رکاوٹ ڈال رہی ہوگی گاڑی کے بجائے پیدل ہی اسپتال جا رہے تھے کہ پولیس والوں نے اس کی بری طرح پٹائی کر دی۔

Published: undefined

وہ واپس گھر گئے اور انھوں نے ایس پی اور ریاستی پولیس سربراہ اور ریاستی وزیر اعلیٰ اور سپریم کورٹ کو اس واقعہ کی اطلاع دے دی۔ انہوں نے ایس پی اور پولیس سربراہ سے درخواست کی کہ ان کی جانب سے مذکورہ پولیس والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ دیپک بندیلے کے لیے وہ لمحہ بڑا حیرت ناک تھا جب اسپتال بھی نہیں جانے دیا جا رہا تھا اور اسپتال جانے کی اجازت دینے کی درخواست پر ان کی پٹائی کی جا رہی تھی۔

Published: undefined

لیکن اصل حیرت کا پہاڑ ٹوٹنا تو ابھی باقی تھا۔ ایس پی اور پولیس سربراہ کے نام شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے جب مقامی پولیس کے کچھ لوگ ان کے گھر گئے تو پولیس والوں نے ان سے کہا کہ وہ اپنا کیس واپس لے لیں اور اگر چاہیں گے تو پولیس کی جانب سے ایک معافی نامہ جاری کر دیا جائے گا۔ لیکن جب دیپک بندیلے نے کیس واپس لینے سے انکار کیا تو ایک پولیس والے نے ایک ایسی بات کہی جو بری طرح چونکا دینے والی تھی۔ اس نے کہا کہ بھائی معاف کر دو۔ در اصل تمہارے چہرے پر بڑی بڑی داڑھی ہے اس لیے مسلمان سمجھ کر تمہاری پٹائی کر دی گئی۔

Published: undefined

اس پولیس والے نے صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ ریاست کی پولیس فسادات کے دوران ہندووں کا ساتھ دیتی ہے اور مسلمانوں کو مارتی ہے اور اس کا علم مسلمانوں کو بھی ہے۔ جس پولیس والے نے تمہیں روکا اور تمہاری پٹائی کی تھی وہ ایک کٹر ہندو ہے اور وہ مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے۔ تمہاری داڑھی کی وجہ سے اسے دھوکہ ہوا کہ تم مسلمان ہو اس لیے اس نے یہ حرکت کی۔

Published: undefined

دیپک بندیلے کے اوپر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ انہوں نے کبھی سوچا بہی نہیں تھا کہ داڑھی رکھنے کی انہیں اتنی بڑی سزا سہنی پڑے گی۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوچا کہ پولیس والوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اس قدر پیوست ہو گئی ہے کہ اگر کوئی مسلمان ہے تو وہ مستحق ہے کہ اس کو پیٹا جائے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کھلے عام اس کا اعتراف بھی کیا جائے کہ تمہاری داڑھی ہے اس لیے مسلمان سمجھ کر تمھاری پٹائی کی گئی۔

Published: undefined

دیپک بندیلے نے یہ تمام باتیں ایک نیوز پورٹل ”دی وائر“ کی عارفہ خانم شیروانی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بتائیں۔ انہوں نے پورا واقعہ بتایا اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح انھیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ان کے بقول پولیس والوں نے ان سے کہا کہ تم بھی وکیل ہو اور تمہارا بھائی بھی وکیل ہے۔ اگر کورٹ میں پریکٹس کرنا چاہتے ہو تو ہم سے سمجھوتہ کر لو اور کیس واپس لے لو۔ ورنہ کیا فائدہ تمہیں کسی کیس میں پھانس دیا جائے گا۔

Published: undefined

لیکن ہمت کی داد دینی پڑے گی دیپک بندیلے کی، جنھوں نے پولیس کی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس واقعہ کو میڈیا میں بیان کر دیا۔ انہوں نے پولیس والوں کی باتیں ٹیپ کر لی تھیں اور دی وائر کو انٹرویو دیتے ہوئے اس ٹیپ کو چلایا گیا جس میں ایک شخص کو واضح طور پر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ تمہیں داڑھی کی وجہ سے مسلمان سمجھا گیا اور تمہاری پٹائی کی گئی۔ اب جو تازہ اطلاع ملی ہے اس کے مطابق اس پولیس افسر کو معطل کر دیا گیا ہے جس نے داڑھی اور مسلمان ہونے کی بات کہی تھی لیکن اس پولیس والے کے خلاف کیا کارروائی ہوئی جس نے دیپک کی پٹائی کی تھی اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔

Published: undefined

مدھیہ پردیش میں پہلے پندرہ برسوں تک بی جے پی کی حکومت تھی۔ شیو راج سنگھ چوہان وزیر اعلیٰ تھے۔ لیکن گزشتہ اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی شکست ہو گئی تھی اور کانگریس کی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ لیکن ڈیڑھ سال کے اندر اندر بی جے پی نے ایک سازش رچی اور کانگریس کے سینئر رہنما جیوترا دتیہ سندھیا کو توڑا گیا اور کانگریس پارٹی میں بغاوت کروائی گئی اور پھر یوں ہوا کہ کانگریس کی حکومت گر گئی اور ایک بار پھر شیو راج سنگھ چوہان کی حکومت چل رہی ہے۔

Published: undefined

ان پندرہ برسوں میں پولیس محکمہ میں مسلمانوں کے خلاف جو نفرت پیدا ہوئی مذکورہ واقعہ اس کی ایک زندہ مثال ہے۔ اور یہ صرف مدھیہ پردیش کی پولیس کا حال نہیں ہے بلکہ ہر اس ریاست کی پولیس کا حال ہے جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے چل کر کہا جا سکتا ہے کہ پورے ملک کا پولیس محکمہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے اسی زہر سے بھرا ہوا ہے۔ حالیہ دنوں میں دہلی میں ہونے والے فسادات اور اس کے بعد مسلمانوں کی یکطرفہ گرفتاریوں میں بھی پولیس کے اس چہرے کو دیکھا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

اس سے قبل متعدد فسادات کی جانچ کرنے والے کمیشنوں نے اپنی رپورٹو ں میں پولیس محکمہ میں مسلم دشمن جذبات اور مسلم مخالف تعصب کو اجاگر کیا ہے لیکن آج تک کسی بھی فساد میں شامل پولیس والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ابھی ابھی ہاشم پورہ سانحہ کی 33 ویں برسی گزری ہے۔ ہاشم پورہ کے دل دہلا دینے والے واقعہ کو کوئی کیسے فراموش کر سکتا ہے جب پی اے سی کے جوانوں نے مسلمانوں کو ایک ٹرک میں لاد کر گنگ نہر میں گولی مار مار کر ان کی لاشیں بہا دی تھیں۔ اس قتل عام میں کل 42 افراد کو پی اے سی نے ہلاک کیا تھا۔ لیکن کیا ہوا کچھ نہیں۔ سب آزاد ہیں۔

Published: undefined

اگرچہ دیپک بندیلے نے اس واقعہ کے خلاف کیس کر دیا ہے لیکن اس کی امید بہت کم ہے کہ اس خاص پولیس والے کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی جس نے انہیں مسلمان سمجھ کر پیٹا تھا۔ یوں تو پولیس میں مسلم دشمنی ایک طویل عرصے سے موجود ہے لیکن جب سے مرکز میں موجودہ حکومت آئی ہے اس رجحان میں بہت زیادہ اضافہ وہ گیا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined