سماجی

صرف کورونا وائرس ہی آپ کو اپنوں سے علیحدہ نہیں کرتا...سید خرم رضا

وائرس ایک دن اپنی موت مر جائے گا اور خوف بھی ختم ہو جائے گا لیکن اس مہلک وائرس نے ہمیں گھروں میں بند کر کے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم سماج میں پہلے سے موجود وائرس کو بھی مار دیں

تصویر سوشل میدیا
تصویر سوشل میدیا 

وبائی مرض کورونا وائرس کا قہر پوری دنیا میں جاری ہے اور دنیا کا ہرملک چاہے وہ کتنا طاقتور ہو، کتنا کمزور ہو، کتنا مذہبی ہو یا کتنا آزاد خیال ہو، سب اس وائرس سے خوفزدہ ہیں۔ اس کا پھیلاؤ اور علاج دونوں خوف پیدا کرنے والے ہیں۔ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ کس کو کب اور کہاں یہ وائرس اپنی زد میں لے لے، اس لئے کوئی اپنے ہی لوگوں سے دوری بنانے پر مجبور ہے۔ اس کا علاج خود کو پوری دنیا سے الگ رکھنے میں بتایا جا رہا ہے۔ وائرس بھی اپنی موت مر جائے گا اور خوف بھی ختم ہو جائے گا، لیکن اس مہلک وائرس نے ہمیں گھروں میں بند کر کے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ ہم سماج میں پہلے سے موجود وائرس کو بھی مار دیں۔

Published: undefined

اس وبا کا خوف اتنا زیادہ ہے کہ پوری دنیا کی عبادت گاہیں بند ہوگئی ہیں، چاہے وہ عیسائیوں کے گرجا گھر ہوں، مسلمانوں کی مساجد ہوں، سکھوں کے گررودوارہ ہوں، ہندوؤں کے عالیشان مندر ہوں، یا یہودیوں کی عبادت گاہیں وغیرہ وغیرہ۔ آج لوگ اپنی اپنی عبادات گھر پر کرنے میں مجبور ہیں۔ آج مسجد اقصی کی بازیابی کے لئے کوئی سڑک پر نظر نہیں آ رہا ہے۔ اتنے سالوں سے بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے تنازعہ سے ملک دو چار تھا اور دونوں فریق اپنے حق کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہر محاذ پر لڑائی لڑ رہے تھے اور اس کے لئے کئی قیمتی جانیں بھی گئیں، لیکن آج سب گھروں میں بند ہیں اور گھروں میں ہی عبادت کرنے پر مجبور ہیں یعنی وہ لڑائی بھی آج کسی کے کام نہیں آرہی ہے۔

Published: undefined

دنیا میں نسلی امتیاز کا جھگڑا صدیوں سے چلتا رہا ہے، گورے جہاں خود کو ہر لحاظ سے اعلی اور برتر سمجھتے رہے ہیں وہیں پوری دنیا میں دیگر رنگ کے لوگوں کو بالخصوص سیاہ فام لوگوں کو کمتر سمجھا جاتا رہا ہے۔ کورونا نامی یہ وبائی وائرس رنگوں کو لے کر کوئی امتیاز نہیں کر رہا اور وہ خود کو اعلی سمجھنے والے گوروں کی بھی جان لینے میں نہیں جھجک رہا۔

Published: undefined

امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جب اقتدار سنبھالا تو انہوں نے ’امریکن فرسٹ ‘ یعنی ’امریکی اوّل‘ کا نعرہ دیا اور انہوں نے ملک میں سفید فام امریکیوں اور سیاہ فام امریکیوں میں تفریق شروع کر دی، لیکن ان کےدورِاقتدار کے آخری سال میں قدرت کی جانب سے یہ ایک ایسی وبائی بیماری سامنے آئی ہے جس کو یہ تمیز ہی نہیں ہے کہ امریکی کون ہے اور غیر امریکی کون ہے۔

Published: undefined

آج ہم مجبوری میں سماجی بائیکاٹ کو اپنے اوپر مسلط کر کے اس بیماری سے خود کو محفوظ تو کر سکتے ہیں لیکن کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم سماج میں پہلے سے موجود بیماریوں سے بھی خود کو بچائیں۔ مذہب کے تعلق سے باربار یہ کہا جاتا رہا ہے کہ یہ کسی بھی فرد کا ذاتی معاملہ نہیں ہے، لیکن ہر فرد جس مذہبی گھرانے میں پیدا ہوجاتا ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مذہبی گھر میں پیدا ہونے میں اس کی مرضی کا کوئی دخل نہیں ہوتا لیکن وہ پوری دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کا مذہب ہی ایک سچا مذہب ہے، وہ جو کہتا اور مانتا ہے وہی بالکل صحیح ہے۔ اب جب وہ گھر میں عبادت کرنے پر مجبور ہے تو اس کا سیدھا پیغام یہ ہے کہ مذہب آپ کا ذاتی معاملہ ہے اور ہر مذہب کا سماج کو بہتر طریقہ سے چلانا مقصد رہا ہےاور یہ ہی قدرت کی مرضی ہے۔ قدرت کبھی یہ نہیں چاہے گی کہ کوئی اس کے باغیچہ کو اجاڑے، اس کے لئے لڑے یا اس میں وہ صرف ایک ہی طرح اور ایک ہی رنگ کے پھول کے پودے لگائے۔

Published: undefined

اس بیماری نے جہاں مذہبی شدت پسندوں کو ایک پیغام دیا ہے وہیں نسل پرستانہ ذہنیت کے لوگوں کو بھی ایک واضح پیغام دیا ہے کہ رنگ اور نسل کا امتیاز سب دقیانوسی باتیں ہیں۔ سماج میں جیسے اس وبائی وائرس کے لئے سب برابر ہیں ویسے ہی سماج میں ہر رنگ اور نسل کا فرد برابر ہے۔

Published: undefined

سرحدوں میں قید ممالک کے قائدین کو بھی یہ بخوبی سمجھ لینا چاہیے کہ ان کو جو اقتدار کرنے کی قوت نصیب ہوئی ہے اس کو وہ آپس میں تفریق بڑھانے کے لئے استعمال نہ کریں، بلکہ دوریوں کو کم کرنے کے لئے اقتدار کا استعمال کریں، نہیں تو سب اپنے اپنے گھروں میں قید ہو جائیں گے۔ علیحدہ رہنے کی اذیت کے بارے میں ان سے پوچھیے جو آج پوری دنیا میں سب سے کٹ کر اپنے کمروں میں قید ہیں۔ ان سے پوچھیے جو اپنے قریبیوں کی آخری رسومات میں بھی شرکت نہیں کر پائے۔

Published: undefined

دنیا کو اس وائرس کے ساتھ تفریق اور امتیاز کو خیر باد کہنے کی ضرورت ہے اور پیار و محبت کی ایسی دنیا بنانی چاہیے جس میں ہر رنگ کے پھول کی اپنی اہمیت ہو اور کوئی پھول کسی دوسرے پھول سے برتر یا کمتر نہ ہو۔ مذہب، نسل اور قومیت کا وائرس ہمیں کورونا وائرس کی طرح ایک دوسرے سےعلیحدہ رہنے پر مجبور کرتا ہے، ہمیں کورونا وائرس کے ساتھ اس وائرس کو بھی ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہے۔ اس ملک کو کم از کم اس کے خاتمہ کی اشد ضرورت ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined