سائنس

کیا 2025 تک پاکستان میں پانی ختم ہو جائے گا؟

اگر پانی زندگی کی اساسی ضرورت ہے تو یہ کہنا بجا ہو گا کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران پاکستان کے عوام اور انکی نسلوں کے حق حیات سے کھلواڑ کی گئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

دیامیر باشا ڈیم کی تعمیر کے لیے شروع کی گئی چندہ مہم بظاہر ناکام ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے نہ سنجیدہ مباحث کی فضا دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی وہ جذباتی ہیجان اور جذبہ ایثار جو 2006ء کے زلزلہ اور 2013ء کے سیلابوں میں دیکھنے میں آیا تھا۔ افواج پاکستان کے سوا، کسی سرکاری ادارے نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس دوران، مرکزی سیاسی دھارے کی جماعتیں اور میڈیا اپنی بقا کی جدوجہد میں ہیں۔ سنگین معاشی بحران کے تناظر میں آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا حکومتی فیصلہ بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ حکومت عوام کش اقدامات کے سیاسی اثرات پر قابو پانے کی تگ و دو میں رہے گی اور چور سپاہی کے اس غیر دلچسپ کھیل میں قیمتی وقت ضائع ہو جائے گا۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

2025ء میں صرف سات برس باقی ہیں

امید واثق یہی ہے کہ گزشتہ سات برسوں کی طرح آئندہ سات برس بھی چشم زدن میں گزر جائیں گے۔ پاکستان میں پانی کے بحران کے حوالہ سے 2025ء ایک علامتی سنگ میل ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو اینڈ ای پی)، آئی ایم ایف، پاکستان کی کونسل فار ریسرچ ان واٹر اور ارسا (انڈس ریور سسٹم اتھارٹی) سبھی متفق دکھائی دیتے ہیں کہ 2025ء تک پاکستان میں ’پانی ختم ہو جائے گا‘۔ پاکستانی تحقیقی ادارے نے 1990ء میں تنبیہ کی تھی کہ ’پاکستان پانی کی کمی کے سنگین خطرے سے دوچار ہے‘۔ اس کے بعد 2005ء میں اس ادارے نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان ’پانی کی قلت‘ کے شکار ممالک کی فہرست میں شامل ہو چکا ہے۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

یہ صورت حال وقت، مواقع اور وسائل کے مسلسل ضیاع کا نتیجہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں فی کس سالانہ 5200 کیوبک میٹر پانی دست یاب تھا جبکہ آج 2018ء میں یہ شرح 1000 کیوبک میٹر سے کم ہے اور خدشہ ہے کہ 2025ء تک یہ مزید کم ہو کر 500 کیوبک میٹر تک رہ جائے گی۔ سادہ لفظوں میں اس کا مطلب ہے خشک سالی اور قحط۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

پانی کی قلت اور متعلقہ مسائل پر کام کرنے والے تحقیقی ادارے حصار فاونڈیشن سے تعلق رکھنے والے ماہر، توفیق پاشا کے مطابق چند دہائی قبل تک پاکستان میں تیس فٹ گہرائی تک پانی مل جاتا تھا لیکن آج پاکستان میں پانی کے لیے سات سے آٹھ سو فٹ تک کھدائی کرنی پڑتی ہے۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

اسی ادارے کی سربراہ سیمی کمال کا کہنا ہے کہ پانی کے زیر زمین ذخیرہ کی تشکیل میں قدرت کو بعض اوقات ایک ہزار برس درکار ہوتے ہیں۔ اگر اس پانی کو ٹیوب ویلوں کے ذریعے بے دریغ نکالا جائے گا تو یقیناً چند برسوں میں ختم ہو جائے گا۔ پنجاب میں زیر زمین پانی کی شرح 20 ملین مکعب فٹ تھی لیکن ہم نے اس کی گویا کان کنی کی ہے۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

واپڈا کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تمام بڑے شہر پانی کی شدید قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اسلام آباد کو 176 ملین گیلن سالانہ درکار ہے مگر اسے 84 ملین گیلن میسر ہے، کراچی کو 1100 ملین گیلن درکار ہے اور اسے سالانہ صرف 600 ملین میسر ہے، پشاور کی سالانہ ضرورت 250 ملین گیلن ہے جبکہ اسے صرف 162 ملین گیلن حاصل ہوتا ہے، لاہور کی سالانہ ضرورت 692 ملین گیلن ہے جبکہ اس کے پاس 484 ملین گیلن ہوتا ہے، کوئٹہ کی ضرورت 45 ملین گیلن ہے جبکہ اسے 28 ملین گیلن حاصل ہوتے ہیں۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

شرح آبادی، اندرون ملک نقل مکانی اور عمومی بے حسی

ماہرین کے مطابق، ماحولیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ شرح آبادی میں اضافہ سے بھی پانی کی ضرورت اور ترسیل کے حوالے سے دباؤ بڑھا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کئی وجوہات ہیں جو موجودہ بحران کا سبب بنیں۔ کسی با ضابطہ منصوبہ بندی کے بغیر شہروں کے پھیلاؤ کی اجازت دی گئی اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل سے چشم پوشی کی گئی۔ صنعتوں میں اضافہ ضروری تھا مگر ماحولیاتی آلودگی اور نکاسی آب کے ضابطے مقرر نہ کیے گئے لہذا ہمارے دریا آلودہ ہو گئے اور زہریلے مواد زیر زمین پانی میں بھی رس گئے۔ سیمنٹ اور چمڑہ فیکٹریوں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ نہروں کی دیکھ بھال نہ کی گئی اور نہری سلسلے میں آبپاشی کے دوران تقریباً 50 فیصد پانی ضائع ہوتا رہا۔ سیم اور تھور کی روک تھام نہ کی جاسکی۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

گزشتہ دنوں پاکستان میں پانی کے بحران اور اس کے ممکنہ تباہ کن اثرات کے موضوع پر فرانس کے معروف ٹی وی چینل، فرانس 24 پر نشر ہونے والے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے، انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اینڈ اسٹریٹیجک انٹرسٹ کے ماہر برائے جنوبی ایشیا، اولیور گئیر نے بتایا، ’یہ نئی یا ناگہانی صورت حال نہیں۔ میں 25 برس قبل پاکستان میں قیام پذیر تھا اور اس وقت بھی سب کو علم تھا کہ پاکستان اس تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں انہیں اس حوالے سے کوئی سنجیدگی یا پریشانی دکھائی نہیں دی اور نہ ہی اس قدر بنیادی مسائل کے حل کے لیے کوئی سیاسی عزم دکھائی دیا۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

آئیے ڈیم بنائیں ہم بھی

پاکستان میں پندرہ میٹر (49 فٹ) سے بلند ڈیموں یا آبی ذخائر کی کل تعداد 153 ہے۔ پاکستان اپنی سرزمین سے گزرنے والے سالانہ 145 ملین ایکڑ فٹ پانی کا صرف10 فیصد ذخیرہ کر سکتا ہے۔ اسکے برعکس ہندوستان میں ڈیموں کی تعداد 3200 اور چین میں 8400 ہے۔ پاکستان کے پاس دو بڑے ڈیم ہیں جن کی استعداد 50 فیصد کم ہو چکی ہے۔ پاکستان ایک ماہ کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد کا حامل ہے جبکہ ہندوستان 220 دن، مصر 1000 دن، امریکہ 900 دن، آسٹریلیا 600 دن اور جنوبی افریقہ 500 دن کے لیے پانی کا ذخیرہ کر سکتے ہیں۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

دریائے جہلم پر منگلہ ڈیم (1965) اور دریائے سندھ پر تربیلہ ڈیم (1968-1976) ورلڈ بینک کی مالی معاونت سے تعمیر کیے گئے، جس نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدہ میں مصالحت کنندہ کا کردار ادا کیا تھا۔ تربیلہ ڈیم اپنے رقبہ اور ڈھانچے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے جبکہ پاکستان کا میرانی ڈیم سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کی استعداد کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا ڈیم ہے اور اسی اعتبار سے سبزئی ڈیم دنیا کا ساتواں بڑا ڈیم ہے۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

ان سات دہائیوں کے درمیان چھوٹے اور درمیانے درجے کے کئی ڈیم تعمیر کیے گئے۔ سندھ میں دراوت ڈیم (2014 )، چوٹیاری ڈیم (2002)، بلوچستان میں ولی تنگی ڈیم (1961)، اکرہ کار ڈیم (1995)، حب ڈیم (1986)، منگی ڈیم (1982)، میرانی ڈیم (2006)، نولونگ ڈیم (2015)، سبکزئی ڈیم (2007) تعمیر کئے گئے۔ اسی طرح خیبر پختونخواہ میں ورسک ڈیم (1960) منگ ڈیم (1970)، خان پور ڈیم (1985)، ڈنڈی دم ڈیم (2011)، درگئی پل ڈیم (2010)، گومل زم ڈیم (2012 )، الائی خوار ڈیم (2016)، دوبر خوار ڈیم (2013)، چنغوذ ڈیم (2007) اور نریاب ڈیم (2006) تعمیر ہوئے۔ پنجاب میں راول ڈیم (1962)، سملی ڈیم (1983)، جاوا ڈیم (1994) اور غازی بروتھا ڈیم (2003) میں تعمیر کیے گئے۔ ان میں سے بیشتر چھوٹے اور درمیانے درجے کے ذخائر ہیں۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

پاکستان کی واٹر پالیسی اور دیامیر باشا ڈیم

پانی کے بحران کے حوالے سے حکومتی اور ریاستی سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی پہلی واٹر پالیسی کا اعلان اپریل 2018ء میں ہوا۔ 2005ء میں ورلڈ بینک کی تحقیقی رپورٹ کے بعد اس کا پہلا مسودہ تیار ہوا، 2010ء تک اس کی نوک پلک درست ہوتی رہی، 2012ء میں اس پالیسی کا حتمی مسودہ تیار ہوا جو 2015ء تک بحث و مباحثہ اور نظرثانی کے مراحل سے گزرتا رہا۔ اس رپورٹ کے مطابق، ’انڈس سسٹم کا 50 فیصد پانی کھیتوں تک پہنچنے سے پہلے ضائع ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ ڈیم اپنی عمر پوری کر چکے ہیں اور پاکستان میں خوراک، پانی اور توانائی کے بحران باہم مربوط ہیں۔ اس رپورٹ میں دیامیر باشا ڈیم بنانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

دیامیر باشا ڈیم گلگت بلتستان اور خیبر پختونخواہ کے درمیان تعمیر ہو گا۔ اس پر مشترکہ مفادات کونسل میں 2009ء پر اتفاق رائے قائم کیا گیا۔ پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے دوران اس پر محض ابتدائی کام ہی ہو سکا البتہ مسلم لیگ نون کی حکومت نے اس پراجیکٹ پر سنجیدگی سے کام شروع کیا۔ یہ ایک میگا پراجیکٹ ہے جس میں 2500 ایکڑ زرعی زمین زیر آب آئے گی اور 30000 مقامی لوگوں کو نقل مکانی کرنا ہو گی۔ بیشتر ماہرین کے خیال میں اس ڈیم کی تعمیر پاکستان کی بقا کے لیے ضروری ہے۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر، فیصل جاوید کا کہنا تھا، یہ ڈیم بنانا پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان میں سالانی 22 ملین ڈالر کا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔ ہم ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کریں تو پانچ برسوں میں اسے تعمیر کر سکتے ہیں۔ ہم بانڈ، کمرشل فنانسنگ اور چندہ مہم کے ذریعے مطلوبہ 12 ارب ڈالر اکٹھے کر لیں گے اور اس مد میں اب تک پانچ ارب روپے کا سرمایہ جمع ہو چکا ہے۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

پاکستان میں پانی کا بحران قومی اتفاق رائے اور سنجیدگی کا تقاضا کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی منافرت سے بالاتر ہو کر ہنگامی بنیادوں پر موجودہ ڈیموں کی تعمیر نو اور نہروں کی مرمت کا کام شروع کیا جائے۔ پانی کا ضیاع روکنے کے لیے عوامی آگاہی مہم شروع کی جائے۔ پاکستان کی روز افزوں عالمی اور علاقائی تنہائی سے اجتناب کیا جائے اور عالمی مالیاتی اداروں اور ترقی یافتہ حکومتوں سے ایسے تعلقات قائم کیے جائیں کہ وہ، منگلہ، تربیلہ اور دیگر ڈیموں کی طرح نئے آبی ذخائر کی تعمیر میں بھی ہماری مالی اور تکنیکی مدد کریں۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 13 Oct 2018, 2:09 PM IST