(دائیں سے بائیں) نوبل انعام یافتہ سائنسداں شیمون سکاگوچی، فریڈ رامسڈیل اور میری ای برنکا۔ تصویر بشکریہ @NobelPrize
فزیالوجی یا میڈیسن (علاج) میں نوبل انعام 2025 امریکہ کی میری ای برنکا، امریکہ کے فریڈ رامسڈیل اور جاپان کے شیمون سکاگوچی کو دیا گیا ہے۔ یہ انعام ان کی ’پریفیرل امیون ٹولرنس‘ (جسم کے بیرونی حصوں میں مدافعتی نظام کی برداشت) سے متعلق ان کی دریافتوں کے لیے ہے۔ اس دریافت نے جسم کے دفاعی نظام کو سمجھنے میں انقلاب برپا کر دیا ہے، جو آٹومیون بیماریوں جیسے رومیٹائڈ آرتھرائٹس، ٹائپ-1 ڈائیبیٹیز اور لیوپس کے علاج کا راستہ ہموار کرے گی۔ اسٹاک ہوم کے کارولنسکا انسٹی ٹیوٹ نے 6 اکتوبر کو اعلان کیا ہے۔
Published: undefined
واضح ہو کہ ہمارا جسم امیون سسٹم (قوت مدافعت) ہمیشہ خطرے سے لڑتا ہے، جیسے وائرس یا بیکٹریا سے۔ لیکن کبھی کبھی یہ سسٹم غلطی سے اپنے ہی حصوں پر حملہ کر دیتا ہے، جسے آٹومیون کی بیماری کہتے ہیں۔ پہلے کے سائنسدانوں کو لگتا تھا کہ امیون سیلس (جراثیم سے لڑنے والے خلیات) جسم کے اندر ہی پرسکون ہو جاتی ہیں، جسے سنٹرل امیون ٹالرنس کہتے ہیں۔ لیکن فاتحین نے ظاہر کیا کہ جسم کے بیرونی حصوں (پیریفیرل) میں بھی ایک خاص سسٹم کام کرتا ہے، جو امیون سسٹم کو منظم رکھتا ہے۔ اس کی وجہ سے جسم کے اعضاء محفوظ رہتے ہیں۔ اس دریافت کی شروعات 1990 کی دہائی سے ہوئی تھی۔ فاتحین نے پایا کہ ’ریگولیٹری ٹی سیلس‘ (ٹریگس) نامی خلیات امیون سسٹم پر بریک لگاتی ہیں۔ اگر یہ خلیات کمزور ہوں تو جسم کے اعضاء پر حملہ ہوتا ہے۔ یہ دریافت کینسر، ٹرانسپلانٹ اور الرجی کے علاج میں بھی معاون ثابت ہوگا۔
Published: undefined
شیمون سکاگوچی کو ریگولیٹری ٹی سیلس کی دریافت کے لیے جانا جاتا ہے۔ 1995 میں انہوں نے دکھایا کہ سی ڈی4+ سی ڈی25+ خلیات امیون سسٹم کو دباتے ہیں، یہ خلیات جسم کو اپنے ہی ٹشوز سے لڑنے سے روکتے ہیں۔ سکاگوچی کی دریافت سے معلوم ہوا کہ ’ٹریگس‘ امیون ٹالرنس برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ان کے کام نے آٹومیون بیماریوں کی سمجھ بدل دی ہے۔ آج ٹریگس میں ردوبدل کر کے ادویات بنائی جا رہی ہیں۔
Published: undefined
میری برنکا اور فریڈ رامسڈیل نے فاکسپی3 (ایف او ایکس پی3) جین کی دریافت کی، جو ٹریگس خلیات کا ’ماسٹر سوئچ‘ ہے۔ 2021 میں انہوں نے پایا کہ فاکسپی3 میں امیوٹیشن سے آئیپیکس سنڈروم ہوتا ہے، ایک نایاب بیماری جہاں بچے کا امیون سسٹم خود کے ہی جسم پر حملہ کرتا ہے۔ اس سے بچوں کی بیماریاں، ذیا بیطس اور آنتوں کے مسائل ہوتے ہیں۔ ان کے کام نے ثابت کیا کہ فاکسپی3 ٹریگس خلیات کو فعال رکھتا ہے۔ یہ دریافت پیریفیرل امیون ٹالرنس کو سمجھنے کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوئی۔ تینوں سائنسداں نے یہ ثابت کر دیا کہ سنٹرل ٹالرنس کے علاوہ پیریفیرل ٹالرنس بھی ضروری ہے۔ ان کی دریافت اب ادویات میں استعمال ہو رہی ہیں، جیسے آٹومیون بیماریوں کے لیے ٹریگس تھیریپی۔
Published: undefined
قابل ذکر ہے کہ یہ نوبل انعام آٹومیون بیماریوں سے نبرد آزما کروڑوں لوگوں کے لیے امید ہے۔ دنیا میں 50 ملین سے زیادہ لوگ ان بیماریوں سے متاثر ہیں۔ ٹریگس تھیریپی سے ٹرانسپلانٹ ریجکشن کم ہوگا۔ کینسر میں ٹریگس کو کنڑول کر کے امیون سسٹم کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ نوبل کمیٹی نے کہا کہ یہ دریافت امیون سسٹم کو کنٹرول کرنے کا طریقہ بتاتی ہے۔ انعام کی رقم 11 ملین سویڈش کرونا (تقریباً 8.5 کروڑ رپے) ہے، جو تینوں فاتحین میں تقسیم ہوگا۔ دسمبر میں اسٹاک ہوم میں تقریب کا انعقاد کیا جائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined