لیپ سال: اضافی دن کا راز اور تاریخ
ہم میں سے بہت سے لوگ حیران ہوتے ہیں کہ ہر چوتھے سال فروری میں 29 دن کیوں ہوتے ہیں۔ اسے لیپ ڈے کے نام سے جانا جاتا ہے اور جب ہم فروری کے مہینے میں اس اضافی دن کو شامل کرتے ہیں تو اسے لیپ سال کہتے ہیں۔ اس طرح، لیپ سال میں ہمارے پاس عام 365 دنوں کے بجائے 366 دن ہوتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ طاقتور لوگوں کا کوئی خفیہ گروپ ہے جو ہر چار سال کے بعد ایک دن کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، لیکن حقیقت میں اس کی سائنسی اور فلکیاتی وجوہات ہیں۔
زمین کا اپنی دھری پر پورا ایک چکر گھومنے کو ہم ایک دن کہتے ہیں اور زمین کا سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرنے کو ہم ایک سال کہتے ہیں۔ ایک دن اور ایک سال کی وجہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ قدرت کا کوئی قانون نہیں ہے کہ سال پورے دنوں میں تقسیم ہی ہونا چاہیے۔ درحقیقت، ہماری زمین سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں 365 دنوں کے علاوہ تقریباً 6 گھنٹے زیادہ لیتی ہے۔ لہذا اگر ہمارے کیلنڈر میں صرف 365 دن ہوتے تو یہ 6 گھنٹے ہر سال شامل ہونے کے بجائے ضائع ہو جاتے۔ ہر چار سال بعد یہ اضافی گھنٹے تقریباً 24 گھنٹے یعنی پورے ایک دن کے برابر ہو جاتے ہیں، اس لیے اس دن کو فروری میں شامل کر دیا جاتا ہے تاکہ سال کا حساب درست رہے۔
Published: undefined
اگر لیپ سال نہ ہوتا تو ہر سال 6 گھنٹے کا فرق آتا اور کچھ ہی صدیوں میں کیلنڈر موسموں کے ساتھ ہم آہنگ نہ رہتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ نیا سال جون میں آتا، سردیوں کا موسم جولائی میں ہوتا اور کچھ صدیوں بعد کرسمس گرم موسم میں آجاتا۔ یہی وجہ ہے کہ لیپ سال ضروری ہے تاکہ ہمارا کیلنڈر زمین کی حرکت کے مطابق برقرار رہے۔
تقریباً دو ہزار سال قبل، رومی حکمرانوں نے محسوس کیا کہ ایک سال کے 365 دنوں میں کچھ مسئلہ ہے۔ اس دور میں وقت کی پیمائش کے لیے صرف سن ڈائل استعمال ہوتا تھا۔ جیسے ہی انہیں ہر سال اس اضافی 6 گھنٹے کا احساس ہوا، انہوں نے اپنے 365 دن کے کیلنڈر میں ترمیم کی۔ اس کوشش کے نتیجے میں جولین کیلنڈر سامنے آیا کیونکہ یہ جولیس سیزر کے زمانے میں لاگو ہوا تھا۔
Published: undefined
رومی سینیٹ نے ایک حل تلاش کیا۔ انہوں نے ہر سال کے اضافی 6 گھنٹے تین سال تک شمار نہ کرنے اور چوتھے سال میں پورے 24 گھنٹے یعنی ایک دن کا اضافہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اضافہ فروری کے مہینے میں کیا گیا کیونکہ اس مہینے میں سب سے کم دن ہوتے تھے۔ اس طرح، نئے جولین کیلنڈر میں ہر چار سال کے بعد ایک اضافی دن کا اصول متعارف ہوا۔
یہ کیلنڈر تقریباً 1500 سال تک استعمال ہوتا رہا۔ اس دوران وقت کی پیمائش کرنے والے آلات زیادہ بہتر ہوتے گئے اور معلوم ہوا کہ زمین سورج کے گرد چکر مکمل کرنے میں 365 دنوں کے بعد اضافی 6 گھنٹوں سے بھی کچھ کم وقت لیتی ہے۔ رومیوں کے پاس اتنی باریک پیمائش کا طریقہ نہیں تھا، اس لیے انہیں اس غلطی کا اندازہ نہ ہوا۔ بعد میں پتا چلا کہ صدیوں میں ہم جولین کیلنڈر کی وجہ سے کچھ زیادہ دن شمار کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ اہم سالانہ تہواروں کی تاریخ میں تبدیلی آ رہی تھی، جیسے موسم بہار کا آغاز، جسے ورنل ایکوینوکس کہا جاتا ہے۔ چند صدیوں میں یہ دن 21 مارچ سے 20، پھر 19 اور پھر 18 مارچ کی طرف کھسکنے لگا۔
Published: undefined
1580 کے آس پاس، عیسائی سربراہ پوپ گریگوری نے محسوس کیا کہ ایسٹر کی تاریخ ہر سال بدل رہی ہے اور اس نے ماہرین فلکیات سے کہا کہ وہ اس مسئلے کا حل تلاش کریں۔ مختلف ماہرین فلکیات نے اس مسئلے پر تحقیق کی اور نتیجہ اخذ کیا کہ جولین کیلنڈر کی وجہ سے دس دن کا فرق آ چکا ہے۔ زمین کے سورج کے گرد چکر مکمل کرنے کے اصل وقت اور کیلنڈر کے درمیان معمولی فرق 1500 سالوں میں 10 دن کے اضافے کی صورت میں سامنے آیا۔
اس خرابی کو دور کرنے کے لیے، 1582 میں گریگورین کیلنڈر متعارف کرایا گیا جس میں 4 اکتوبر کے بعد 15 اکتوبر کر دیا گیا تاکہ یہ فرق ختم ہو سکے۔ اس نئے کیلنڈر میں لیپ سال کے اصول میں معمولی تبدیلی کی گئی۔ اب بھی ہر چار سال کے بعد ایک لیپ ڈے کا اصول برقرار رکھا گیا، لیکن ہر سو سال کے بعد اس اصول میں نرمی کی گئی۔ اب وہ سال جو 100 سے تقسیم ہو سکتا ہو، لیپ سال نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ 400 سے بھی تقسیم نہ ہو سکے۔ مثال کے طور پر، 1700، 1800، اور 1900 لیپ سال نہیں تھے، جبکہ 1600 اور 2000 لیپ سال تھے۔
Published: undefined
یہ حیران کن کامیابی تھی کہ عیسائی ماہرین فلکیات زمین کے سورج کے گرد چکر کے وقت کا درست حساب کتاب کرنے میں کامیاب رہے، وہ بھی بغیر کسی جدید دوربین کے۔ انہوں نے پایا کہ زمین سورج کے گرد چکر تقریباً 365.2425 دن میں مکمل کرتی ہے جبکہ جولین کیلنڈر میں یہ وقت 365.25 دن فرض کیا گیا تھا۔ اس معمولی فرق کی وجہ سے جولین کیلنڈر ہر 400 سال میں تین دن کا اضافہ زیادہ کر دیتا تھا، جسے گریگورین کیلنڈر میں درست کر دیا گیا۔
اگرچہ یہ طریقہ بھی مکمل طور پر درست نہیں ہے اور ہر 3030 سال میں ایک دن کا فرق پیدا ہو سکتا ہے لیکن زمین کی گردش کی موجودہ شرح اس طویل عرصے میں بدل سکتی ہے، اس لیے فوری طور پر کسی بڑی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ مزید یہ کہ زمین کی اپنی دھری پر گردش کی رفتار بھی وقت کے ساتھ کم ہو رہی ہے، جس سے دن قدرے طویل ہوتے جا رہے ہیں۔
Published: undefined
لیپ سال کا تصور محض ایک اضافی دن کا اضافہ نہیں بلکہ ایک سائنسی اور فلکیاتی ضرورت ہے۔ اگر ہم لیپ سال کا خیال نہ رکھیں تو چند صدیوں میں ہمارا کیلنڈر مکمل طور پر بگڑ جائے گا اور موسمی تبدیلیاں ہمارے کیلنڈر سے مطابقت نہیں رکھیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ لیپ سال کو باقاعدہ اصول کے تحت شامل کیا جاتا ہے تاکہ وقت اور موسمی تبدیلیوں کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رہے۔
آخر میں، اپنی سالگرہ کو صحیح وقت پر منانے کے لیے زمین کے سورج کے گرد پورے چکر کو سمجھنا ضروری ہے۔ ہفتے کے کسی مخصوص دن کی فکر نہ کریں کیونکہ وہ آپ کی سالگرہ کا اصل دن نہیں، بلکہ ایک نظام کا نتیجہ ہے جو زمین کی حرکت کے مطابق بنایا گیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined