پریس ریلیز

الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے شراوستی کے سیل 30 مدرسوں کو کھولنے کا حکم کیا صادر

جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر عدالت کا یہ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا محمود مدنی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مدارس کے تحفظ کے ساتھ انصاف اور آئین کی بھی جیت ہے۔

<div class="paragraphs"><p>الٰہ آباد ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

الٰہ آباد ہائی کورٹ، تصویر آئی اے این ایس

 

نئی دہلی/ لکھنو: اتر پردیش حکومت کی مدرسہ مخالف کارروائی پر اہم فیصلہ سناتے ہوئے آج الہٰ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے شراوستی میں سرکار کے ذریعہ بند کیے گئے 30 دینی مدارس کو فوراً کھولنے کا حکم دیا ہے اور تعلیمی سرگرمیوں پر لگی پابندی ہٹا دی ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس پنکج بھاٹیہ کی بنچ نے مقدمہ (ڈبلیو آر آئی سی نمبر 2025/5521) کی مکمل سماعت کے بعد دیا ہے۔ اہل مدارس کی طرف سے اس کی پیروی جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر مقرر کردہ وکلاء کی ٹیم نے کی جن میں سینئر ایڈووکیٹ پرشانت چندرا، ایڈووکیٹ اویرل راج سنگھ اور ایڈووکیٹ علی معید شامل تھے۔

Published: undefined

عرضی گزاروں نے حکومت کے اُن نوٹس کو چیلنج کیا تھا جن میں انہیں مذہبی تعلیم دینے سے روک دیا گیا تھا اور اداروں کو سیل کر دیا گیا تھا۔ متعدد دلائل کے ساتھ عرضی گزاروں کا مؤقف تھا کہ اس معاملے میں انہیں کوئی موقعِ سماعت نہیں دیا گیا۔ اس سے قبل 7 جون 2025 کو ہائی کورٹ نے ان مدارس کے انہدام پر روک لگاتے ہوئے کہا تھا کہ تمام نوٹسوں کا نمبر ایک ہی ہے جو حکام کی بے عقلی پر دال ہے۔ شراوستی میں مدرسوں پر بلڈوزر کارروائی اور یکطرفہ اقدامات نے سخت تشویش پیدا کر دی تھی جس سے باقی اہل مدارس بھی خوفزدہ ہو گئے تھے۔ ایسے حالات میں جمعیۃ علماء ہند اور مدارس کے ذمہ داران کے درمیان مسلسل رابطے ہوئے اور بالآخر 26 مدارس کی جانب سے 25 مئی کو لکھنؤ بنچ میں مقدمہ دائر کیا گیا، جن میں مدرسہ معین الاسلام و دیگر بنام حکومت اتر پردیش اہم فریق ہے۔ مدارس اور وکلاء کے درمیان رابطہ سازی کی ذمہ داری جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی، جمعیۃعلماء اٹاوہ کے صدر مولانا طارق شمسی، مولانا جنید احمد اور جمعیۃ علماء شراوستی کے جنرل سکریٹری مولانا عبد المنان قاسمی نے انجام دی۔

Published: undefined

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا محمود اسعد مدنی نے عدالتی فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ مدارس کے تحفظ کے ساتھ انصاف اور آئین کی جیت بھی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مدارس ملک و ملت دونوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ ادارے غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں اور ان کی شخصیت کو نکھارتے ہوئے اچھا انسان اور ذمہ دار شہری بناتے ہیں۔

Published: undefined

مولانا مدنی کا کہنا ہے کہ حکومت کا غیر مدبرانہ اور بدنیتی پر مبنی اقدام کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ آئین نے ہمیں دینی تعلیم کا حق دیا ہے اور اس حق کو چھیننے والی کوئی بھی حکومت آئین مخالف کہلائے گی۔ مولانا مدنی نے اس کامیابی پر مدارس کے منتظمین اور جمعیۃ کے وکلاء کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کی۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined