سیاسی

یوگی جی کا اتر پردیش حقیقی معنوں میں ہوگیا اُلٹا پردیش

پولس کی زیادتیوں کا یہ عالم ہے کہ عام لوگ تو درکنار اب صحافیوں تک کو نہیں بخشا جا رہا ہے ایک پرانی کہاوت ہے کہ پتیلی سے زیادہ چمچ گرم ہو جاتا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

آر ایس ایس کی مہربانی، طاقت، صلاحیت اور نیز میڈیا کی مہربانی سے اس وقت بنگال میں امن عامہ کی صورت حال عوامی گفتگو کا موضوع بنی ہے جبکہ اگر حقیقی معنوں میں اور نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو اتر پردیش سہی معنوں میں جرائم اور پولس کی زیادتیوں کے معاملہ میں صف اول میں شامل ہو گیا ہے۔ قتل، ریپ، دلتوں پر مظالم اور فرقہ وارانہ منافرت اپنے عروج پر ہے، پولس کی زیادتیوں کا یہ عالم ہے کہ عام لوگ تو درکنار اب صحافیو ں تک کو نہیں بخشا جا رہا ہے ایک پرانی کہاوت ہے کہ پتیلی سے زیادہ چمچ گرم ہو جاتا ہے، وہی کچھ آج کل اتر پردیش کے پولس محکمہ میں دکھائی دے رہا ہے۔

Published: 17 Jun 2019, 5:10 PM IST

ایک خاتون نے باقاعدہ میڈیا میں بیان دیا کہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ سے اس کے رومانٹک تعلقات ہیں، ظاہر ہے یہ ایک سنسنی خیز خبر تھی اور آج صحافت کا جو انداز اور معیار ہے یہ اس کے لئے ایک بڑی خبر بریکنگ نیوز تھی اس خبر کو پرشانت قنوجیا نام کے ایک صحافی نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں ڈال دی

Published: 17 Jun 2019, 5:10 PM IST

ایک پرانی کہاوت ہے کہ پتیلی سے زیادہ چمچ گرم ہوتا ہے ویسا ہی کچھ اس معاملہ میں ہوا۔ مذکورہ خاتون نے الزام وزیر اعلی پر لگایا تھا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یوگی جی خود اس کی تردید کرتے اور اگر چاہتے تو پولس میں رپورٹ بھی درج کرا سکتے تھے، اس کے بعد ہی پولس کو حرکت میں آنا چاہیے تھا لیکن یہ سب کچھ نہیں ہوا بس ایک دروغہ جی کی رگ وفاداری پھڑکی اور انہوں نے از خود ایف آئی آر درج کرا کے سادی وردی میں لکھنؤ سے دہلی پہنچ کر اس صحافی کو ایسے گرفتار کر لیا جیسے کسی دہشت گرد کو گرفتار کیا ہو، ایک ریاست سے دوسری ریاست میں ملزم کو لے جانے کے لئے جو ٹرانزٹ ریمانڈ لینی ہوتی ہے وہ بھی دہلی کی عدالت سے نہیں حاصل کی گئی، غرض کہ پوری کارروائی نہایت ہی غیر قانونی طریقہ سے انجام دی گئی لیکن اتر پردیش حکومت نے اس لاقانونیت کے خلاف پولس پر کوئی ایکشن نہیں لیا، جس سے صاف ظاہر ہے کہ سب کچھ یوگی جی کی مرضی اور ایما پر کیا گیا تھا۔

Published: 17 Jun 2019, 5:10 PM IST

وہ تو کہیے پرشانت کی اہلیہ سپریم کورٹ کی وکیل ہیں انہوں نے فوری طور سے سپریم کورٹ میں حبس بیجا کی عرضی لگا دی اور سپریم کورٹ نے ان کی فوری رہائی کا نہ صرف حکم جاری کر دیا بلکہ حکومت کو صاف لفظوں میں آگاہ بھی کر دیا کہ شخصی آزادی کے معاملہ میں عدالت کسی بھی قسم کی روگردانی برداشت نہیں کرے گی، لیکن کتنے ایسے صحافی ہیں جو سپریم کورٹ تک پہنچنے کی صلاحیت اور حیثیت رکھتے ہیں وہ حکومت یا با اثر نیتاؤں، مافیاؤں اور بلڈروں کے اشارہ پر پولس کے مظالم کا شکار ہوتے ہیں اور الٹے مقدموں میں پھنسا دیئے جاتے ہیں، کتنوں کو اذیت ناک موت سے ہمکنار ہونا پڑتا ہے۔

Published: 17 Jun 2019, 5:10 PM IST

ابھی یہ معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ شاملی ریلوے سٹیشن پر ٹکٹوں خاص کر ریزرویشن کے معاملوں میں ہو رہی بدعنوانی کی رپورٹنگ کے لئے گئے ایک صحافی کو ریلوے پولس کے عملہ نے پکڑ کر نہ صرف بری طرح زد و کوب کیا بلکہ ایک داروغہ نے اس کے منہ پر پیشاب بھی کر دیا اس پر ہنگامہ ہوا تو عملہ کو معطل کر دیا گیا۔

Published: 17 Jun 2019, 5:10 PM IST

شرمناک اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ صحافیوں پر ہونے والے ان مظالم کے خلاف خود صحافتی برادری ویسے آواز نہیں اٹھاتی جیسی اٹھنی چاہیے در اصل سماج کے ہر طبقہ کی طرح صحافتی برادری بھی مودی حامی اور مودی مخالف گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے

Published: 17 Jun 2019, 5:10 PM IST

صحافیوں کی اکثریت کو ہندوتوا کا نشہ چڑھا ہوا ہے یہاں تک کہ اپنی برادری پر بھی ہونے والے مظالم کو وہ نہ صرف نظر انداز کرتے ہیں بلکہ سنگھ پریوار کی بنیادی روش کے مطابق پرانی باتیں یاد دلا کر اسے ہلکا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں جیسے ایک غلط بات دوسری غلط بات کا جواز فراہم کرتی ہو۔

Published: 17 Jun 2019, 5:10 PM IST

انڈین فیڈریشن آف ورکنگ جرنلسٹ دو گروپوں میں منقسم ہے لیکن دونوں میں سے کسی ایک نے بھی صحافیوں پر ہونے والے ان مظالم کے خلاف ایک بیان تک نہیں جاری کیا، دھرنا مظاہرہ وغیرہ تو الگ کی بات ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا نے ایک پریس نوٹ جاری کر کے ان واقعات کی مذمت کا فرض ادا کر دیا، جبکہ پریس کونسل آف انڈیا نے شاملی واقعہ کی جانچ کے لئے ایک ٹیم بھیجی ہے۔ یہ واقعات تو وہ ہیں جومنظر عام پر آ گئے اور جن میں بڑے صحافی وابستہ تھے ضلع اور تحصیل کی سطح پر کام کرنے والے صحافیوں کی جان ہمیشہ خطرہ میں رہتی ہے، انھیں نیتاؤں، افسروں، مافیاؤں، ٹھیکیداروں اور بلڈروں وغیرہ سے ہمیشہ جان کا خطرہ رہتا ہے اور ستم بالاے ستم برا وقت پڑنے پر ان کے اخبار اور چنل بھی ان کو اپنا بتانے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ انھیں معاوضہ وغیرہ دینا پڑ سکتا ہے ایسے ایماندار اور جانباز صحافیوں کر تحفظ کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا۔

Published: 17 Jun 2019, 5:10 PM IST

ضرورت ہے کہ حکومت اور صحافیوں کی انجمنیں اس صورت حال پر غور کریں اور صحافیوں کو ان کے فرض منصبی ادا کرنے کی نہ صرف آزادی یقینی بنائیں جو کہ ہمارے آئیں کا جزو لاینفک ہے بلکہ جو جمہوریت کی بقا کی شرط اولین ہے صحافیوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پیشے کی آبرو اور غیر جانب داری کو یقینی بناۓ رکھنے کے لئے ایمانداری اور غیر جانبداری سے اپنا قلم چلائیں۔

Published: 17 Jun 2019, 5:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 17 Jun 2019, 5:10 PM IST