سیاسی

مسئلہ کشمیر کو عالمی رنگ کس نے دیا؟... سہیل انجم

پانچ اگست سے قبل تو کشمیر پر دنیا کے دیگر ملکوں کی جانب سے ایسے بیانات نہیں آئے تھے جیسے کہ اب آرہے ہیں۔ تو کیا حکومت اس الزام سے خود کو بچا سکے گی کہ اس نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی رنگ دے دیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

سہیل انجم

اب یہ سوال زیادہ شدت سے اٹھنے لگا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے، پاکستان کے ساتھ دوطرفہ معاملہ ہے یا پھر بین الاقوامی معاملہ ہے۔ ایسا سوال پوچھنے والے ہندوستان میں بہت ہیں جن میں سیاست داں بھی ہیں، صحافی بھی، دانشور بھی اور سماجی و انسانی حقوق کے کارکن بھی۔ لیکن جب بھی ایسا کوئی سوال پوچھا جاتا ہے تو حکومت یہی کہتی ہے کہ یہ عالمی مسئلہ نہیں ہے۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

جب جموں و کشمیر سے دفعہ 370 کے خاتمے پر بات ہوتی ہے تو حکومت کہتی ہے کہ یہ ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہندوستان نے اس معاملے پر جس طرح سفارتی کوششیں کی ہیں اس کی وجہ سے دنیا کے بیشتر ملک دفعہ 370 کے خاتمے کو ہندوستان کا داخلی معاملہ مانتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان نے اپنے آئین کے دائرے میں رہ کر یہ قدم اٹھایا ہے۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

لیکن جس طرح پہلے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جولائی میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران کہا کہ وہ مسئلہ کشمیر میں ثالثی کا فریضہ انجام دینا چاہتے ہیں اور پھر بعد میں بھی انھوں نے نیو یارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کے جنرل اجلاس کے موقع پر بھی ثالثی کی پیشکش دوہرائی اور پھر دوسرے کئی واقعات پیش آئے اس کے پیش نظر مذکورہ سوال زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ہندوستان کے وزیر اعظم مودی نے ان سے ثالثی کرنے کی بات کہی ہے۔ لیکن ہندوستان نے فوری طور پر اس کی سختی سے تردید کی۔ اس کے بعد ٹرمپ نے کئی بار ثالثی کی پیشکش کی لیکن انھوں نے پھر یہ نہیں کہا کہ مودی نے ان سے اپیل کی ہے۔ بلکہ انھوں نے از خود ایسی پیشکش کی۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

کہا جاتا ہے کہ ان کی پیشکش کے بعد ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے دفعہ 370 کے خاتمے کا فیصلہ کیا تاکہ اس مسئلے کو مکمل طور پر ایک داخلی مسئلہ بنایا جاسکے۔ حالانکہ وہ اسے داخلی مسئلہ تو نہیں بنا سکے البتہ ایک طرح سے یہ ایک عالمی مسئلہ ضرور بن گیا۔ کیونکہ حکومت کے اس قدم کے بعد دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر پر جتنی گفتگو ہوئی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

در اصل حکومت نے مذکورہ دفعہ کے خاتمے کے بعد جس طرح وہاں مختلف قسم کی پابندیاں عاید کیں جن میں سے کچھ اب بھی جاری ہیں، اس کے پیش نظر یہ بات اٹھنے لگی کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ایک بار پرکاش جاوڈیکر نے جو کہ اس وقت مرکزی وزیر ہیں، اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے سے بات نہ کر سکے اور اپنی بات کسی سے کہہ نہ سکے۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

لیکن اب جبکہ کشمیر میں مواصلات پر اور بالخصوص انٹرنیٹ اور پری پیڈ موبائیل پر اب بھی پابندی ہے اس کے پیش نظر انھیں اب اپنی یہ بات پتہ نہیں یاد آرہی ہے یا نہیں، لیکن ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ اب انھی کی حکومت کشمیریوں پر ”سب سے بڑا ظلم“ کر رہی ہے۔ انٹرنیٹ پر پابندی کی وجہ سے وہاں کی معیشت کو جو شدید نقصان پہنچا ہے اور کشمیر دسیوں سال بلکہ بعض تجزیہ کاروں کے مطابق سیکڑوں سال پیچھے ہو گیا ہے اس کی فکر کسی کو نہیں ہے۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

بات چل رہی تھی کشمیر مسئلے کے بین الاقوامی رنگ کی۔ دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان نے اسے عالمی فورموں پر خوب اچھالا۔ چین نے اس کا ساتھ دیا۔ اس کی کوششوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بند کمرے میں اس پر گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد وزیر اعظم مودی نے ہاوڈی مودی پروگرام میں اس کا ذکر کیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں انھوں نے اس معاملے کو تو نہیں اٹھایا لیکن عمران خان نے اٹھایا اور اپنی تقریر کا ایک بڑا حصہ کشمیر پر فوکس کر دیا۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

عمران کے علاوہ ترکی اور ملیشیا کے سربراہوں نے بھی کشمیر کا معاملہ اٹھایا۔ ملیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”ہندوستان نے کشمیر پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا ہے“۔ بعد میں ہندوستان نے اس بیان کی مذمت کی اور ان سے اس پر نظر ثانی کی اپیل کی۔ ہندوستان ملیشیا سے پام آئیل کا بہت بڑا درآمد کار ہے۔ یہاں کے تاجروں کی ایک تنظیم نے پام آئیل درآمد نہ کرنے کا بیان دیا۔ جس پر مہاتیر محمد نے کہا کہ وہ اس مسئلے پر گفتگو کریں گے۔ لیکن انھوں نے اپنے بیان سے رجوع کرنے سے انکار کر دیا۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

ابھی اس مسئلے پر گفتگو ہو ہی رہی تھی کہ اسی درمیان یوروپی یونین کے ممبران پارلیمنٹ کا ایک 30 رکنی وفد ہندوستان آگیا۔ بلکہ اسے ایک نجی تنظیم کی جانب سے مدعو کیا گیا۔ اس وفد سے وزیر اعظم اور قومی سلامتی کے مشیر نے ملاقات کی اور مشیر نے ان کے اعزاز میں ظہرانے کا اہتمام کیا۔ ان کے جموں و کشمیر کے دورے سے قبل ان کو کشمیر کے بارے میں بتایا گیا۔ جس وفد نے دورہ کیا اس میں 23 ارکان شامل تھے۔ یوروپی یونین کے ایک اور ممبر آف پارلیمنٹ جانا چاہتے تھے۔ لیکن انھوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے لوگوں سے ملیں گے اور جو دیکھیں گے وہی کہیں گے۔ اس کے بعد ان کا نام وفد سے نکال دیا گیا۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

مذکورہ وفد میں جو لوگ شامل رہے ہیں وہ سب انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں۔ یعنی ان کے نظریات اور بی جے پی و آر ایس ایس کے نظریات میں بہت حد تک یکسانیت ہے۔ اس وفد کے کسی بھی رکن نے اپنی مرضی سے عوام سے ملنے پر اصرار نہیں کیا۔ حکومت نے جہاں چاہا وہاں ان کو لے جایا گیا۔ ان لوگوں کی جانب سے ایسا کوئی بیان بھی نہیں آیا جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ وفد نے آزادانہ طور پر دورہ کیا ہے۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

اس وفد کے دورے پر یہاں کی اپوزیشن جماعتوں نے سخت اعتراض کیا اور بالخصوص کانگریس کے رہنماؤں نے اسے ہندوستانی پارلیمنٹ کی بے عزتی قرار دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں کے ارکان پارلیمنٹ کشمیر جانا چاہتے ہیں تو انھیں نہیں جانے دیا جا رہا ہے اور غیر ملکی ارکان پارلیمنٹ کو لے جایا جا رہا ہے۔ اس معاملے پر کافی ہنگامہ ہو چکا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ جب پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہوگا تو اس پر کافی لے دے ہوگی۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

ان تمام واقعات کی روشنی میں بہت سے لوگ حکومت سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ جب مسئلہ کشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ ہے تو پھر اسے بین الاقوامی کیوں بنایا جا رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ پانچ اگست سے قبل تو کشمیر پر دنیا کے دیگر ملکوں کی جانب سے ایسے بیانات نہیں آئے تھے جیسے کہ اب آرہے ہیں۔ تو کیا حکومت اس الزام سے خود کو بچا سکے گی کہ اس نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی رنگ دے دیا ہے۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 03 Nov 2019, 10:11 PM IST