سیاسی

کب ہم کھل کھیل کر چھینک پائیں گے… سید خرم رضا

اب تو بس اس دن کا انتظار ہے جب ہم خوب کھل کھیل کر چھینک پائیں گے اور چھینک آنے پر الحمداللہ با آواز بلند کہہ پائیں گے۔ ہاں جب تک یہ دور واپس نہ آئے تب تک کہیں اکیلے ہی میں چھینکیے۔

تصویر گیٹی ایمج
تصویر گیٹی ایمج 

کوئی شخص چھینکتا تھا تو ڈاکٹر حضرات اسے صحت مندانہ سرگرمی قرار دیتے تھے اور ہمارے دین میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ جب کوئی شخص چھینکے تو وہ الحمداللہ کہے یعنی اللہ کا شکر ادا کرے۔ اللہ کا شکر تو انسان ہر حال میں ہی ادا کرتا ہے لیکن چھینک سے پہلے جو انسان کی کیفیت ہوتی ہے وہ بھی دیکھنے لائق ہوتی ہے۔ اپنی زندگی میں اس کیفیت سے ہم سبھی لوگ کئی مرتبہ گزر چکے ہیں۔ چھینک آنے سے پہلے چھینک آنے والے شخص کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح چھینک آنے سے پہلے اس شخص کی ناک کے نتھنے پھول جاتے ہیں، بھنویں اوپر نیچے ہو جاتی ہیں اور آنکھیں بند ہو جاتی ہیں، وہ منظر دیکھنے لائق ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ان ساری کیفیات سے گزرنے کے بعد بھی چھینک نہیں آتی، اس وقت بے چارے اس شخص کی حالت قابل دید ہوتی ہے۔ ان سب کے باوجود چھینک مارنے والے شخص کو کوئی برا نہیں سمجھتا تھا لیکن یہ سال 2020 ایسا آیا ہے کہ زندگی کے سارے ضابطہ ہی بدل گئے ہیں۔

Published: undefined

جی اب چھینک آنا تو بہت دور کی بات ہے اگر کوئی انسان گلا صاف کرنے کے لئے ہلکا سا کھانس بھی دیتا ہے تو وہاں موجود تمام لوگوں کی نظروں کا وہ مرکز بن جاتا ہے اور ہر شخص اس کو دشمن بھری نظروں سے دیکھنے لگتا ہے۔ وہاں موجود ہر شخص کو ایسا لگتا ہے کہ اس کے سب سے بڑے دشمن نے کھانس کر اپنے آنے کی دستک دے دی ہے۔ وہ فوراً اس دشمن سے نمٹنے کے لئے اپنے ہتھیار سنبھال لیتا ہے۔ چہرے پر لگے ماسک کو درست کرنے لگتا ہے اور پاس پڑے سینیٹائزر کو اپنے پاتھوں پر ایسے مَلنے لگتا ہے جیسے کوئی پہلوان اکھاڑے میں کشتی کے لئے اترنے سے پہلے جسم پر تیل ملتا ہے۔

Published: undefined

کئی مرتبہ تو چھینک مارنے والے اپنے بچے اور بیوی بھی دشمن ملک کے فوجی سے لگنے لگتے ہیں جن سے جتنی جلدی نجات مل جائے اتنا بہتر ہے۔ ارے چھینک مارنے والے اپنے بچے اور بیوی کو ایسے گھورتے ہیں جیسے ان کو آج پہلی مرتبہ دیکھا ہو۔ اگر آپ کیب سے سفر کر رہے ہیں اور غلطی سے ڈرائیور کو چھینک آ گئی ہو، اس وقت دل یہ چاہتا ہے کہ گاڑی کہیں رک جائے، وہ اس سے کود جائیں یعنی زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کرنے والے کی تو اور بڑی مجبوری ہے وہ تو پورے سفر کے دوران اپنی چھینک اور کھانسی تو روکنے کی کوشش کرتے ہی ہیں، ساتھ میں اس خوف کا شکار بھی رہتے ہیں کہ کہیں ساتھ سفر کرنے والا کھانس اور چھینک نہ دے۔

Published: undefined

آج کل اگر کسی کو ڈرانا ہو تو بس اس کے سامنے چھینک جیسی کیفیت بنانا ہی کافی ہے، ایسی کیفیت دیکھ کر پولیس والا بھی چالان کاٹنا چھوڑ دیتا ہے اور اپنی جان بچانے کے لئے اس کو جانے کو کہہ دیتا ہے۔ یہ سب دین ہے کورونا وائرس کی جس نے ہمیں ایک دوسرے سے دور رہنے پر مجبور ہی نہیں کیا ہے بلکہ ساتھ میں ایک دوسرے کو دشمن سمجھنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔ چہرا ڈھکے رہیے چاہے کتنا ہی خوبصورت چہرا کیوں نہ ہو۔ بیماری کا تو ذکر ہی نہیں کرنا ہے اگر بیماری کا ذکر کر دیا تو بس آپ سے بڑا سماج دشمن کوئی نہیں۔ اب تو بس اس دن کا انتظار ہے جب ہم خوب کھل کھیل کر چھینک پائیں گے اور چھینک آنے پر الحمداللہ با آواز بلند کہہ پائیں گے۔ ہاں جب تک یہ دور واپس نہ آئے تب تک کہیں اکیلے ہی میں چھینکیے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined