سیاسی

مدارس اسلامیہ کی وطن پرستی پریوگی کا طمانچہ

مدارس اسلامیہ کی وطن پرستی پریوگی کا طمانچہ

مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے بچے - Getty Images
مدرسہ میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے بچے - Getty Images 

پورے ہندوستان میں اقلیتوں،خصوصاً مسلمانوں کے دل ودماغ پر ایک منظم نفسیاتی حملہ کا سلسلہ چل رہا ہے۔انہیں دہشت زد ہ کرنے، ان کے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے، ان کی اہم شخصیات کو ذلیل وخوار کرکے خاموش کرانے، انہیں غیر محفوظ بناکر تعمیر وترقی کی دوڑ سے راہ فرار اختیار کرنے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ مدارس اسلامیہ ہندوستان میں مسلمانوں کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔اس ریڑھ کی ہڈی کو توڑنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہے ہیں۔

منہ پر طمانچہ

یوپی، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر وغیرہ میں مدارس اسلامیہ سے کہاگیا کہ آپ یوم آزادی پورے اہتمام سے منائیں اور اس کا ویڈیو بناکر ثبوت کے طور پر سرکار کو پیش کریں۔ اس حکم نامہ کا مقصد یو م آزادی منانا نہیں، بلکہ ملک کو یہ بتاناہے کہ ہندوستانی مسلمان یوم آزادی نہیں مناتے ۔ وہ غدار ہیں، وہ پاکستان پرست ہیں، وہ ملک کے وفادار نہیں ہیں۔ خاص طورپر مدارس اسلامیہ کو ذلیل وخو ار کرنے کے مقصد سے یہ کھیل کھیلا گیا۔ یہ حکم نامہ دراصل مدارس اسلامیہ کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ان کی وطن پرستی پر سوالیہ نشان ہے۔

سچائی پر پردہ

سچائی یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ میں ہر برس بہت جوش وخروش اور خلوص کے ساتھ یوم آزادی کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ دارالعلوم دیوبند اور مدارس اسلامیہ ہند نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا۔ اس وقت جب سنگھ انگریز کے ساتھ کھڑا تھا۔مسلم لیگ اور آر ایس ایس دونوں انگریز کی حمایت میں متحدہ تحریک چلارہے تھے، مدارس اسلامیہ ترنگا جھنڈا ہاتھ میں لیکر مولانا آزاد اور مہاتما گاندھی کے ساتھ انگریز وں کی جیلیں بھررہے تھے۔

سنگھ پریوار ترنگا مخالف

سچائی یہ ہے کہ روز اول سے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور ہندومہاسبھا ہندوستان کے ترنگے جھنڈے اور آئین کے مخالف رہے ہیں۔ انہوں نے ترنگے کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ 2002تک آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر ناگپور میں اور اس کی شاکھاؤں میں کبھی بھی ترنگا نہیں لہرایاجاتاتھا۔ وہ ترنگے کو سلامی دینا اپنی توہین سمجھتے تھے۔ وہاں بھگوا جھنڈا لہرایاجاتاتھا۔ جب مرکز میں اٹل بہاری واجپئی کی سرکار بن گئی تو طوعاًوکرہاً سنگھ پریوار نے دکھاوے کے لئے ترنگا لہرانا شر وع کیا۔ آج یہی سنگھ پریوار مسلمانوں کی وطن پرستی پر سوالیہ نشان کھڑے کررہاہے ۔اس کا مقصدمسلمانوں کوخوف میں مبتلا کرنا ہے۔ انہیں ذہنی طور پر مفلوج بنانا ہے۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی کو تو ڑ کر ان کی تہذیب وتمدن اور ایمان کوکمزورکرنا ہے۔

یک طرفہ حملہ

افسوسناک اور شرمناک بات یہ ہے کہ یوپی کی یوگی حکومت نے صرف مدارس پر یہ پابندی لگائی ہے۔ سرکاری اسکولوں پر یوم آزادی کا جشن منانے اورا س کا ویڈیو بناکر بھیجنے کی پابندی نہیں ہے، جبکہ اکثر سرکاری اسکولوں میں یہ فنکشن برائے نام اور صرف دکھاوے کے لئے ہوتاہے۔زیادہ تر ماسٹر وندے ماترم تو کیا،جن گن من بھی ٹھیک طرح نہیں گاسکتے۔ میرا دعویٰ ہے کہ یوگی حکومت کے بیشتر وزیر وندے ماترم کی چار لائنیں بھی نہیں گاسکتے۔

وندے ماترم پر اعتراض

مسلم ادارے راشٹریہ گان اور سارے جہاں سے اچھا پورے جوش وخروش سے گاتے ہیں، مگر انہیں وندے ماترم گانے میں اعتراض ہے، کیونکہ عام خیال ہے کہ ایسا کرنے سے بھارت ماتا کی پوجا کا گمان ہوتاہے،جبکہ یہ درست نہیں ہے۔ وندنا کا مطلب تعریف وتوصیف کرناہے اورجبکہ سامنے کوئی مورتی نہیں ہے۔ آپ کی نیت مادر وطن کی تعریف وتوصیف ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے،مگر سوال زبردستی کا ہے۔ اگر مسلم علماء اور عوام کو وندے ماترم پر اعتراض ہے، تو پھر بھاجپائی حکومتیں اسے مسلمانوں پر کیوں تھوپ رہی ہیں؟مسلمان وندے ماترم کسی دباؤ میں ہرگز نہیں گائیں گے۔ ان کے سر پر تلوار رکھ کر ان سے وطن پرستی کاثبوت مانگا جائیگا، تو مسلمان ایسا کرنے سے قطعاً انکار کریں گے ۔

دراصل ان کا مقصد وندے ماترم پر یم نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کویہ احساس دلانا ہے کہ جو ہم چاہیں گے، تمہیں وہ کرناہوگا۔تمہیں اب دونمبر کا شہری بن کر رہنا ہوگا۔ ہندوستانی مسلمان کو مادروطن ہندوستان سے زبردست محبت ہے۔ مسلمان کے لئے وطن پرستی نصف ایمان ہے، مگر مسلمان اپنے اس وطن عزیز میں دو نمبر کا شہری بن کرنہ رہا ہے ،نہ رہے گا۔

منہ توڑ جواب

مدارس اسلامیہ نے ہمیشہ کی طرح اس برس بھی یوم آزادی پورے جو ش وخروش سے منایا۔ ہر جگہ شاندار جلسے اور فنکشن منعقد کئے گئے۔ جلو س نکالے گئے۔برادران وطن اور میڈیانے دیکھاکہ ہندوستانی مسلمان کس طرح اپنی وطن پرستی کا اظہار کرتے ہیں۔ مدارس نے اپنے ان جلسوں سے ان کے ایمان اور وطن پرستی پر سوال اٹھانے والے یوگی اوردوسرے سنگھ پریوار کے عناصر کو منہ توڑ جواب دیا۔

جمعیۃ العلماء نے 13اگست کو پورے ملک میں تقریباً 800شہروں میں امن مارچ نکالا، جس کا مقصد ایک طرف تو ہندوستان کی آزادی اور سیکولر جمہوریت کا جشن منانا تھا، دوسری طرف فرقہ پرستی ،ہجومی تشدد اورنفرت کے خلاف ماحول تیار کرنا تھا۔

سنگھ پریوار کا اصل مقصد؟

دنیا میں جب کسی قوم کو ختم کرنا ہوتا ہے، تو پہلے اس کے تعلیمی اداروں، اس کی اہم شخصیات، اس کی سماجی وتہذیبی قیادت کو نشانہ بنایاجاتاہے ،انگریز نے ہندوستان پر قبضہ کرنے کے بعد مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا، مگر اس کے جواب میں سرسید احمد خانؒ اور مولانا قاسم نانوتویؒ نے تعلیمی تحریک شروع کرکے اسکول، کالج اور مدارس قائم کرکے انگریزوں کی سازش کو ناکام بنایاتھا۔

آج بھی یہی کھیل ہے اور اس کھیل کے جواب میں مسلمانوں کو اور ان کی قیادت کو نہایت دانشمندی اور تدبر سے کام لینا ہوگا۔ ہمیں ٹکراؤ کا نہیں، سمجھداری کا راستہ اپنانا ہے۔ جو ش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہے۔ تخریب کے راستے پر چل کر نہیں،تعلیم کے راستے پر چل کر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے وطن عزیز میں بہتراورمحفوظ مستقبل کی تعمیرکرنی ہے۔

یہ صرف مدارس پر حملہ نہیں ہے۔ نشانہ پر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ سمیت تمام اقلیتی ادارے ہیں۔ نائب صدر حامد انصاری سے لیکر فلم اسٹار عامر خان تک سب کو جھکانے، دبانے اور ذلیل وخوار کرنے کی منظم مہم چل رہی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو نہایت ہی صبر سے کام لینا ہوگا۔ اپنی تعلیم اور کاروبار پر توجہ دینی ہوگی۔ ملک کے سیکو لر سماج سے ہاتھ ملاکر آگے بڑھنا ہوگا۔ سیکولر سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کوصرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرتی ہیں ،جس سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ مسلمانوں کو ووٹ بینک بننے کے بجائے،سیاسی جماعتوں کا ہتھیار بننے کے بجائے ملک کے ذی ہوش عناصر سے ہاتھ ملاکر وطن عزیز کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیناہوگا۔مسلمانوں کو قدم قدم پر اپنی محنت، صلاحیت ،ڈسپلن ،ایمانداری ، خلوص اور نیک نیتی سے ثابت کرنا ہوگا کہ وہ بھارت کے کسی دوسرے شہری سے زیادہ ایماندار شیدائی ہیں۔ انھیں اپنی صلاحیتوں سے ملک میں اپنے لئے بہتر مقام بناناہوگا۔ انشاء اللہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والی تمام سازشیں ناکام ہونگی اور برادران وطن جو آج مسلمانوں کے ایمان پر شک کررہے ہیں، کل خود یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ مسلمانوں سے زیادہ وطن پرست اور وفادار کوئی نہیں۔ مسلمانوں کے بغیر ہندوستان کی تعمیر ناممکن ہے اور مسلمانوں کے بغیر ہندوستان نامکمل ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined