سیاسی

مودی-شاہ کے طریقہ کار سے آر ایس ایس ناراض، مرکز پر گرفت کمزور ہونے کا اندیشہ

آر ایس ایس اس بات سے فکر مند ہے کہ حد سے زیادہ نیشنلزم، مذہبی پولرائزیشن اور فرقہ وارانہ تقسیم جیسے فارمولے اپنانے کے باوجود زمینی سطح کی رپورٹ کیوں این ڈی اے حکومت بننے کے اشارے نہیں دے رہی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) میں اس بات کو لے کر بے حد فکر ہے کہ اگر 17ویں لوک سبھا میں بی جے پی ضروری نمبر حاصل کرنے میں ناکام رہی تو اقتدار پر گرفت کے اس کے روڈ میپ پر پانی پھر سکتا ہے۔ ساتھ ہی آر ایس ایس اس بات سے بھی فکرمند ہے کہ حد سے زیادہ نیشنلزم، مذہبی اور ذات پات پر مبنی پولرائزیشن اور فرقہ وارانہ تقسیم جیسے سبھی فارمولے اختیار کرنے کے باوجود زمینی سطح کی رپورٹ کیوں بی جے پی یا این ڈی اے حکومت بننے کے اشارے نہیں دے رہی ہیں۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

عام انتخابات کے چھ مراحل پورے ہو چکے ہیں اور ساتویں و آخری مرحلہ کی تاریخ قریب آتے آتے کافی دھول چھَٹ چکا ہے۔ اب جو تصویر سامنے نظر آ رہی ہے اس سے صاف ہو رہا ہے کہ نہ صرف مرکز بلکہ 2022 میں اتر پردیش میں بھی بی جے پی کی اقتدار میں واپسی مشکل ہے۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

دراصل بی جے پی کے دعووں سے الگ اتر پردیش کو لے کر آر ایس ایس کا اپنا اندازہ بالکل الگ ہے۔ آر ایس ایس نے مان لیا ہے کہ اتر پردیش میں سماجوادی پارٹی و بہوجن سماج پارٹی اتحاد اور کئی سیٹوں پر کانگریس کی جانب سے سخت چیلنج ملنے سے بی جے پی اس بار بھنور میں ہے اور اس کے دور رس اثرات 2022 کے اسمبلی انتخابات پر بھی ہوں گے۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

اس کے علاوہ جنوب و شمال مشرق ہندوستان سے مل رہے منفی زمینی اشاروں سے آر ایس ایس کو یہ بھی صاف نظر آنے لگا ہے کہ یو پی میں بی جے پی کو جو زبردست نقصان ہو رہا ہے، اس کا ازالہ باقی ریاستوں سے ہونے کے امکانات ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ یو پی، گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ سمیت جن 8 اہم ریاستوں سے بی جے پی نے 5 سال پہلے زبردست اکثریت حاصل کی تھی، وہاں کانگریس اور علاقائی پارٹیوں نے اس بار بی جے پی کی دولت پر ٹکے تشہیری نظام کو کئی علاقوں میں نہ صرف بے اثر بنا دیا بلکہ اسے بالکل کمزور اور حراساں حالت میں لا کھڑا کر دیا۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

آر ایس ایس کے ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز ذرائع نے اعتراف کیا کہ نیشنلزم کا نعرہ بھلے ہی شہری علاقوں میں بی جے پی کے لیے چلتا ہوا نظر آیا ہو، لیکن مرکز و بی جے پی حکمراں ریاستوں میں ریاستی حکومت کے خلاف اقتدار مخالف رجحان نے دیہی علاقوں، کسانوں اور مزدوروں میں عدم اطمینان کا جذبہ کم نہیں ہو پایا۔ ساتھ ہی ذاتی اور سماجی اتحاد کے حاوی ہونے سے بی جے پی کے کٹر ووٹ بینک میں مایوسی بھی بڑھی۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

آر ایس ایس میں ایک طبقہ اس بات سے لگاتار ناراضگی ظاہر کرتا رہا ہے کہ نیشنلزم کے نعرے سے ہندوتوا اور رام مندر کا ایشو جس قدر الگ تھلگ ہوا، اس سے بی جے پی کو نہ صرف اس الیکشن میں بلکہ آنے والے دنوں میں کافی نقصان ہوگا۔ آر ایس ایس کا ماننا ہے کہ رام مندر تعمیر کی رخنات کو دور کرنے کی جگہ مودی حکومت پانچ سال تک صرف زبانی جمع خرچ کرتی رہی ہے۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

غور طلب ہے کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت ان اہم لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے رام مندر کی رکاوٹوں کو دور کرنے میں تاخیر کو لے کر 2018 میں کئی بار مودی حکومت کے تئیں اپنی ناخوشی برسرعام ظاہر کی تھی۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

اتر پردیش اور شمالی ہندوستان کے دوسرے حصوں میں بی جے پی کے گھٹتے مینڈیٹ کے لیے آر ایس ایس کا ایک طبقہ واضح طور پر مانتا ہے کہ پرانے اور مضبوط کارکن، خاص طور پر آر ایس ایس سے نکلے لوگوں کو ترجیح دینے کی جگہ مودی-امت شاہ نے پوری بی جے پی کا کردار ہی بدل دیا۔ اعلیٰ لیڈروں کو بے عزت کیا جانا ایک الگ ایشو ہر ریاست میں ہے۔ غصہ اس پر بھی ہے کہ ایسے لوگوں کو ریاستوں میں کمان سونپی گئی جو نہ صرف سینئر لیڈروں کی بے عزتی کرتے ہیں بلکہ ان کی شبیہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

ہماچل پردیش میں طویل مدت سے آر ایس ایس میں سرگرم ایک اہم آر ایس ایس کارکن کی بات مانیں تو بی جے پی میں پرانی تہذیب میں پلے بڑھے کارکنان کو پارٹی کے اصل دھارے سے دودھ میں مکھی کی طرح بالکل الگ کر دیا گیا۔ یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ نئے لوگ اور ایسے کارکن سے بی جے پی تنظیم کے تئیں جواب دہ نہیں، انھیں ہی ٹکٹ دیے جائیں اور توجہ دی جائے۔ آر ایس ایس کے پرانے لوگ بی جے پی میں اس تبدیلی کو مودی-شاہ کے ذریعہ پیدا کی گئی نئی سیاسی ثقافت سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

یو پی بی جے پی اور آر ایس ایس کے قریبی ایک دیگر لیڈر نے مانا ہے کہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ پچھلے دو سال میں ریاستی انتظامیہ کو جس ڈھرّے پر لے جایا گیا اور سیاسی مخالفین کے تئیں اول جلول تبصرے کیے گئے، اسی کا نتیجہ ہے کہ ایک دوسرے کو پھوٹی آنکھ نہ سہانے والے ملائم-مایا-چودھری اجیت سنگھ ایک ساتھ آ کر مضبوط اتحاد بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

بی جے پی میں یہ ماننے والوں کی بھی کمی نہیں کہ ہندوتوا کے نام پر بی جے پی کی جانب متوجہ ہونے کی جگہ پسماندہ، انتہائی پسماندہ اور دلت بی جے پی سے دور چلے گئے۔ اس کے علاوہ یو پی میں کانگریس کے ’ایکلا چلو‘ کی سیاست سے بھی آر ایس ایس کی فکر کے کئی واجب اسباب ہیں۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

یو پی میں آر ایس ایس و بی جے پی سے جڑے ایک کارکن نے مانا ’’بھلے ہی ہم نے کانگریس کو طاقت کو شروع میں کم سمجھنے کی کوشش کی، لیکن پرینکا گاندھی کی انتخابی تشہیر کی کمان سنبھالنے کے بعد کانگریس نے اعلیٰ ذاتوں اور اقلیتی طبقہ میں اپنا کھویا ہوا مینڈیٹ واپس لانے کی شروعات کر دی ہے جو بی جے پی کے لیے مستقبل کے خطرے کا اشارہ ہے۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 15 May 2019, 10:10 AM IST