سیاسی

یوپی میں بے اثر ہوتے ’ہندو کارڈ‘ سے مودی فکرمند، پرینکا-اکھلیش کی ریلیوں میں زیادہ بھیڑ سے بھی گھبراہٹ

وارانسی میں پرینکا گاندھی کی ریلی میں ایک لاکھ لوگوں کی بھیڑ جمع ہوئی تھی، جب کہ اکھلیش آدھی آدھی رات کے بعد بھی ریلیاں کر رہے ہیں اور بڑی تعداد میں لوگ موجود رہتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے وارانسی میں وشوناتھ مندر کے نوتعمیر احاطہ کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر کوریج کیسے کیا گیا، اس پر غور کریں۔ پرسار بھارتی کے سی ای او ششی شیکھر ویمپتی نے مودی کے اس دورہ کے لیے 55 کیمرہ، 7 سیٹلائٹ اَپ لنک وین، تمام ڈرون سے لے کر کرین کی مدد سے اِدھر سے اُدھر کیے جانے والے بھاری بھرکم ’جمی جبس‘ کیمرہ سسٹم کا بھی انتظام کیا۔ ٹیلی پرامپٹر سہولت تو تھی ہی۔

Published: undefined

بیشتر ٹیلی ویژن چینلوں نے انعقاد کو لائیو کور کیا اور اس لمحہ کو ’تاریخی‘ قرار دیتے ہوئے تعریف کے پل باندھ ڈالے کہ کس طرح 800 کروڑ خرچ کر کے مندر کا نقشہ بدلا گیا۔ رات ایک بجے وارانسی ریلوے اسٹیشن کے جائزہ سے لے کر گنگا میں غسل کرنے تک وزیر اعظم جہاں جہاں گئے ان کی تصویریں کھینچی گئیں، ویڈیو ریکارڈنگ کی گئی۔ اس موقع پر 12 ریاستوں کے بی جے پی وزیر اعلیٰ جمع ہوئے اور اس کے بعد سبھی ایودھیا کے لیے روانہ ہو گئے۔ وزیر اعظم کے اوپر گلاب کی پنکھریوں کی بارش کرنے کی ویڈیو اس کیپشن کے ساتھ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی کہ ’’اس شخص نے وہ کر دکھایا جو صدیوں سے کوئی نہیں کر سکا تھا۔ اسی لیے لوگ ان کا مہاراجہ کی طرح استقبال کر رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

تعریف کرنے والے اس بات پر حیران ہوئے جا رہے تھے کہ دسمبر کی ٹھنڈ میں 71 سال کا کوئی انسان ندی میں ڈبکی کیسے لگا سکتا ہے؟ تو وہیں، کچھ ایسے بھی تھے جنھیں حیرانی اس بات پر ہو رہی تھی کہ چشمہ پہنے کیا کوئی ندی میں ڈبکی لگا سکتا ہے؟ کچھ ایسے بھی مودی کے ناقدین تھے جنھیں کوئی حیرانی نہیں ہو رہی تھی اور ایسے ہی ایک انسان نے سوال کیا: ’’دورِ قدیم میں رومن بادشاہ کھیلوں اور آدمی کو آدمی یا مویشیوں سے لڑانے کا زبردست پروگرام کیا کرتا تھا، تاکہ لوگوں کا دھیان بھٹکا رہے اور وہ بغاوت نہ کریں۔ آپ کو کیا لگتا ہے، مودی جی یہ سب کیوں کر رہے ہیں؟‘‘

Published: undefined

سوشل میڈیا پر لوگوں نے ان پانچ الگ الگ لباسوں کو شیئر کیا جو وزیر اعظم مودی نے دن کے الگ الگ مواقع پر پہنے۔ شیئر کی گئیں تصویروں کو دیکھتے ہوئے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے رات میں چھٹی بار بھی کپڑے بدلے ہوں گے۔ کون کہتا ہے کہ دن میں چھ بار کپڑے بدلنا کوئی آسان کام ہے؟

Published: undefined

لوگوں نے ان تصویروں کا بھی مذاق اڑایا جن میں وزیر اعظم بھگوان کو نہیں بلکہ کیمروں کی طرف دیکھتے نظر آ رہے ہیں۔ ایک نے تبصرہ کیا ’’کیمرے کچھ کو نشانہ بناتے ہیں جب کہ کچھ کیمرے کو نشانہ بناتے ہیں۔‘‘ وزیر اعظم نے اسٹیشن پر ایک گھڑی کے سامنے تصویر کھنچوائی جس میں ڈائل رات کے 1 بجے کا وقت دکھا رہا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دن میں 18 گھنٹے کام کرتے ہیں، جیسا کہ انھوں نے بار بار دعویٰ بھی کیا ہے۔ کسی نے تبصرہ کیا ’’جب کہ وزیر اعظم کے حامی خوش ہیں، میری شکایت تو یہ ہے کہ کوئی بھی کیمرہ مین کی تعریف نہیں کرتا۔‘‘ آخر اس نے بھی تو 18 گھنٹے کام کیا ہوگا۔

Published: undefined

وزیر اعظم نے تعمیراتی مزدوروں پر پھولوں کی پنکھریاں برسائیں اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جس کی بڑی تعریف کی جا رہی ہے۔ حامیوں نے اسے محبت سے بھرا ہوا پایا تو مخالفین نے اسے دوسری طرح سے دیکھا۔ ان کا دھیان بیٹھے لوگوں کے سامنے رکھے فلاسک اور تھالی پر گیا۔ وزیر اعظم کے سامنے فلاسک اور تھالی کو قرینے سے رکھا گیا تھا جب کہ مزدوروں کے سامنے یہ بے ترتیب تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ کسی بھی مزدور نے اپنی تھالی کو چھوا بھی نہیں تھا، وہ ڈر سے جمے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

Published: undefined

اس پورے پروگرام کے منتظمین نے یقیناً بڑی تعریف پائی ہوگی، صرف عادتاً تنقید کرنے والوں نے ٹیکس دہندگان کے پیسے کے غلط استعمال کے نظریے سے اسے دیکھا۔ لکھنؤ کی ایک گھریلو عورت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کچھ اس طرح اپنی ناراضگی ظاہر کی: ’’جے این یو کے اسٹوڈنٹ پر ٹیکس دہندہ کے پیسے بیجا استعمال کرنے کا الزام لگانے والوں کو کیا اس طرح کی جا رہی پیسے کی بربادی نظر نہیں آتی؟‘‘

Published: undefined

کچھ دیگر لوگوں نے اس طرح اپنی نااتفاقی ظاہر کی کہ ایک جانب تو حکومت ہوائی اڈوں، ایکسپریس وے اور مندروں کی تعمیر پر پیسے خرچ کر رہی ہے جب کہ دوسری جگہوں کی طرح ہی اتر پردیش کے لوگ مہنگائی، بے روزگاری اور بھوک سے عاجز ہیں اور حکومت خود بھی اس بات کو مان رہی ہے کہ اسے منریگا، اسکالرشپ اور فلاحی پروگراموں پر بجٹ کو گھٹانے کے لیے مجبور ہونا پڑا ہے۔

Published: undefined

وزیر اعظم کے آفیشیل پروگرام کا بطور سیاسی اسٹیج استعمال کرنے پر اب لوگوں کو حیرانی نہیں ہوتی۔ لیکن یہ بات ضرور لوگوں کے ذہن میں اندیشہ پیدا کر رہی ہے کہ 2017 کے انتخاب میں جس طرح مذہب ایک فیصلہ کن وجہ ثابت ہوا تھا، کیا اس بار بھی ویسا ہو پائے گا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں۔

Published: undefined

ریاست میں ہونے والے وزیر اعظم کے پروگراموں میں لوگوں کی بھیڑ جمع کرنے کے لیے بی جے پی کو جس طرح مشقت کرنی پڑ رہی ہے، اسے لوگوں میں بیٹھے غصے سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم کے اجلاس میں منریگا مزدوروں اور اسکولی بچوں کی بھیڑ جمع کی جا رہی ہے۔ ویسے اسکولی بچوں کو تو ان کے اجلاس میں دیکھا جا سکتا ہے جو یونیفارم میں ہوتے ہیں۔ پھر بھی کرسیاں خالی رہتی ہیں اور وزیر اعظم کے خطاب کے دوران لوگوں کو اٹھ کر باہر جاتے دیکھا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

وارانسی میں پرینکا گاندھی واڈرا کی ہوئی گزشتہ ریلی میں ایک لاکھ کی بھیڑ جمع ہوئی، جب کہ اکھلیش یادو آدھی آدھی رات کے بعد بھی ریلیاں کر رہے ہیں اور پھر بھی ان میں بڑی تعداد میں لوگ موجود رہتے ہیں۔ وزیر اعظم اس بار بھی مذہب کو بی جے پی کی انتخابی مہم کا مرکز بناتے ہوئے ’ہندو کارڈ‘ کھیل رہے ہیں لیکن یہ کتنا کارگر رہے گا، اس پر شبہ ہے۔ ویسے سبھی یہ تصور کر رہے ہیں کہ تقریباً پانچ سال کی بدانتظامی کے بعد بی جے پی کے سامنے ’جاگو ہندو‘ ہی واحد کارڈ بچ گیا تھا۔ لوگ یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ ووٹنگ سے قبل بی جے پی کی جھولی سے کافی کچھ باہر آنے والا ہے۔ ہو سکتا ہے کسی عوامی پروگرام کا اعلان ہو جائے۔ کہیں فساد کا اندیشہ سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اومیکرون کی آڑ میں اپوزیشن کے پروگراموں پر قدغن بھی لگایا جا سکتا ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined