سیاسی

اب زبَان کے نام پر عوام کو لڑانے کی تیاری... سہیل انجم

ہندی زبان کی بالادستی سنگھ کی پالیسی کا ایک حصہ رہی ہے۔ وہ پہلے بھی ہندی کو تھوپنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہنگامے بھی ہوئے ہیں۔ خاص طور پر جنوب میں اس پالیسی کے خلاف زبردست احتجاج ہوا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

سہیل انجم

وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنے ترکش سے اب ایک نیا تیر نکال لیا ہے۔ انھوں نے ہندی کو پورے ملک کی مشترکہ زبان بنانے کا بیان دے کر ایک پرانے تنازعے کو ہوا دے دی ہے۔ اب اگر زبان کے نام پر ٹکراؤ ہوتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کے مد مقابل آجاتے ہیں تو اس میں حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ ابھی تو بنگلور اور جنوب کے دیگر شہروں میں کچھ احتجاج ہوا ہے لیکن اگر حکومت نے ہندی کو تھوپنے کی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

ہندی زبان کی بالادستی بی جے پی اور آر ایس ایس کی پالیسی کا ایک حصہ رہی ہے۔ وہ پہلے بھی ہندی کو تھوپنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ جس کی وجہ سے کافی ہنگامے بھی ہوئے ہیں۔ خاص طور پر جنوب میں اس پالیسی کے خلاف زبردست احتجاج ہوا ہے۔ ہندوستان میں زبان کے نام پر فسادات کی بھی ایک تاریخ رہی ہے جن میں متعدد افراد کو اپنی جانیں گنوانی پڑی ہیں۔ لہٰذا دانشمندی کا تقاضہ تو یہ ہے کہ لسانی جھگڑے نہ کھڑے کیے جائیں اور جس طرح لوگ اپنی پسند کی زبان بولتے اور لکھتے ہیں ان کو وہی زبان استعمال کرنے دی جائے۔ اگر اس کے خلاف کیا گیا تو نتیجہ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

امت شاہ نے جو باتیں کہی ہیں ان میں سے کئی ایسی ہیں جن کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندی ہی ایک ایسی زبان ہے جو پورے ملک کو متحد رکھ سکتی ہے۔ یہ سراسر بے بنیاد بات ہے۔ بلکہ سچائی یہ ہے کہ اگر ہندی کو پورے ملک پر تھوپنے کی کوشش کی گئی تو فسادات ہو سکتے ہیں۔ لوگ زبان کے نام پر مختلف خانوں میں بٹ سکتے ہیں۔ کیا امت شاہ اس کا جواب دیں گے کہ ہندی پورے ملک کی زبان نہیں ہے تو کیا اب تک ہندوستان متحد نہیں رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اردو زبان پورے ملک کی مشترکہ زبان رہی ہے اور اسے بتدریج اور ایک سازش کے تحت ختم کیا گیا۔ اور اس وقت ہندی نہیں بلکہ انگریزی رابطے کی زبان ہے۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

انھوں نے ہندی دیوس پر اپنی تقریر میں کہا کہ ’’ہماری قدیم تاریح، تہذیب اور جنگ آزادی کی یاد کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی مقامی زبانوں کو محفوظ کریں اور کم از کم ایک زبان ایسی ہو جسے پورا ملک جانے۔ اگر ہندی کو تحریک آزادی سے الگ کر دیا جائے تو پوری جنگ کی روح تباہ ہو جائے گی‘‘۔ یہ بیان انتہائی گمراہ کن ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام علاقائی زبانوں کا تحفظ ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ پورا ملک ایک ہی زبان جانے۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

جہاں تک جنگ آزادی میں ہندی زبان کے کردار کی بات ہے تو جنگ آزادی کا آغاز تو اردو زبان نے کیا تھا۔ جنگ آزادی کے ہمارے جتنے پیشوا ہیں سب اردو کا استعمال کرتے تھے۔ جتنی تحریکیں چلیں خواہ وہ ریشمی رومال تحریک ہو یا دیگر تحریکیں سبھی نے اردو کو اپنا سہارا بنایا۔ اردو اخبارات نے جنگ آزادی کی چنگاری کو بھڑکا کر شعلوں میں تبدیل کیا۔ اردو صحافت نے تحریک آزادی میں جو درخشاں رول ادا کیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ لاکھوں علماء جنھیں تختہ دار پر چڑھا دیا گیا اردو ہی بولتے اور لکھتے پڑھتے تھے۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

آخر انقلاب زندہ باد کا نعرہ کس نے دیا۔ سرفروشی کی تمنا کا نغمہ کس زبان میں گایا گیا۔ شہید اشفاق اللہ خاں، بھگت سنگھ اور دوسرے شہدا کی زبان کیا تھی۔ کیا امت شاہ کو معلوم ہے کہ مکمل آزادی کا نعرہ جسے پورن سوراج کہا گیا کس زبان نے دیا۔ یہاں تک کہ جنگ آزادی میں شہید ہونے والا پہلا صحافی اردو کا تھا جسے لوگ مولانا محمد باقر کے نام سے جانتے تھے۔ کیا امت شاہ کسی ایسے ہندی پترکار کا نام بتا سکتے ہیں جسے جنگ آزادی میں کردار کی وجہ سے توپ سے باندھ کر اڑا دیا گیا ہو۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

اس وقت جتنے بھی اخبارات نکلتے تھے خواہ وہ مسلمانوں کے ہوں یا ہندووں کے سب اردو زبان میں نکلتے تھے۔ پرتاپ، ملاپ، پارس، ریاست اور آریہ بھارت جیسے اخبارات بھی جن کے مالکان مسلمان نہیں تھے اردو رسم الحظ میں نکلتے تھے۔ ان میں سے کئی ہندی کے الفاظ استعمال کرتے تھے لیکن سب کا رسم الحظ اردو تھا۔ اور امت شاہ کہتے ہیں کہ ہندی کو نکال دیا جائے تو پوری تحریک آزادی کی روح تباہ ہو جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اردو کو نکال دیا جائے تو پوری تحریک آزادی کی عمارت دھڑام سے زمین پر آرہے گی۔ امت شاہ کو تاریخ پڑھنی چاہیے اور اس کے بعد ایسا کوئی بیان دینا چاہیے۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

اس وقت پوری دنیا میں رابطے کی اگر کوئی زبان ہے تو وہ انگریزی ہے۔ امت شاہ کہتے ہیں کہ ایک زبان کی ضرورت ہے تاکہ غیر ملکی زبانیں یہاں اپنی جگہ نہ بنا سکیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج ہندی پڑھ کر کوئی اچھی ملازمت حاصل کی جا سکتی ہے۔ زمانے کی ترقی کا ساتھ دینے کے لیے کہا جاتا ہے کہ دوسری زبانوں کا علم حاصل کرو۔ ایسے لوگوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو یونیورسٹیوں میں دوسرے ملکوں کی زبانیں پڑھ کر اچھی ملازمتیں کر رہے ہیں۔ ہندی زبان کی بنیاد پر تو اپنے ہی ملک میں کوئی اچھی ملازمت حاصل نہیں کی جا سکتی چہ جائیکہ غیر ممالک میں حاصل کرنا۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

امت شاہ نے جنگ آزادی اور ہندی کے حوالے سے مہاتما گاندھی کا بھی نام لیا۔ لیکن کیا انھیں یہ بات نہیں معلوم کہ گاندھی جی ہندی کے حمایتی نہیں تھے۔ وہ ہندوستانی کے حمایتی تھے۔ یعنی ایک ایسی زبان جس میں ہندی بھی ہو، اردو بھی ہو، مقامی زبانوں کے الفاظ بھی ہوں۔ ایک ایسی زبان جس کو پورا ملک سمجھ سکے۔ جو نہ مشکل ہندی ہو نہ ہی مشکل اردو۔ لیکن ہندوستانی کو رواج دینے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اور زبردستی ہندی کو تھوپنے کی سازش کی گئی۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

آج دنیا کے تمام علوم کا سرمایہ انگریزی زبان میں ہے۔ کیا کمپیوٹر کی زبان کو ہندی میں لکھا جا سکتا ہے۔ بالکل نہیں۔ اگر ماؤس، کی پیڈ، ہارڈوئیر، سافٹ وئیر، پین ڈرائیو جیسے الفاظ کو ہندی کا جامہ پہنا دیا گیا تو کیا ہوگا۔ ابھی تک تو ریلوے اسٹیشن ہی کی ہندی نہیں بنی ہے۔ اسے ہندی میں ’’بھک بھک اڈہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ٹرین کی آسان ہندی بنی ہی نہیں۔ اسے ’’لوہ پتھ گامنی‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح بہت سے ایسے عوامی الفاظ ہیں جن کی آسان ہندی ہو ہی نہیں سکتی۔ ان کو انگریزی یا اردو ہی میں بولا جا سکتا ہے۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

کورٹ کچہری اور تھانوں میں استعمال ہونے والی زبان ہندی نہیں اردو ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اردو رسم الحظ کے بتدریج ختم ہونے جانے کے بعد وہ الفاظ ہندی رسم الخط میں لکھے جانے لگے ہیں۔ لیکن ہیں وہ اردو کے الفاظ۔ ابھی موب لنچنگ کے ایک کیس میں ایک تھانیدار نے کہا کہ ’’مضروب نے جو بات بتائی ہے‘‘۔ اب یہ مضروب کس زبان کا لفظ ہے۔ اردو کا ہے ہندی کا نہیں ہے۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

امت شاہ کے بیان پر مغربی بنگال، کرناٹک اور تمل ناڈوں میں شدید احتجاج ہوا ہے۔ خود حکمراں محاذ میں شامل ایک پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے نے ان کے بیان پر سخت اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ امت شاہ کا یہ بیان ملک کی تکثیریت پر ایک حملہ ہے۔ اس نے کہا ہے کہ صرف 45 فیصد افراد ہی ہندی بولتے ہیں اس کو پورے ملک کی زبان کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ تمل ناڈو کے وزیر ثقافت پانڈی راجن کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے یکطرفہ طور پر ہندی کو تھوپنے کی کوشش کی تو اس کے خلاف رد عمل ہوگا اور نہ صرف تمل ناڈو میں بلکہ مغربی بنگال، کرناٹک اور آندھرا پردیش میں بھی ہوگا۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

تمل ناڈو کی اپوزیشن جماعت ڈی ایم کے نے بھی اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ امت شاہ کا یہ بیان قومی اتحاد کے لیے شدید نقصاندہ ہے۔ لہٰذا وہ اپنا بیان فوراً واپس لیں۔ ایم کے اسٹالن کے مطابق یہ بیان انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ایک ملک ایک زبان کی پالیسی غیر ہندی بھاشی لوگوں کو جان بوجھ کر دوسرے درجے کا شہری ہونے کا احساس دلانا ہے۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

آئین نے ہر شہری کو اپنی زبان کے استعمال اور اس کے فروغ کی آزادی دی ہے۔ امت شاہ کا یہ بیان اس کے برعکس ہے۔ انھیں چاہیے کہ اپنا بیان واپس لیں اور ہندی کو پورے ملک پر تھوپنے کی کوشش نہ کریں ورنہ اس کے برعکس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 15 Sep 2019, 9:10 PM IST