سیاسی

جمہوریت کے ’مندر‘ سے نفرت کا پیغام!

نو منتخب ممبر پارلیمنٹ کو حلف دلایا جارہا تھا تب عوامی نمائندے ملک کی حفاظت اور ترقی کی قسم کھانے کے ساتھ ہی متنازعہ نعرے لگا کر ’انتہا پسندی‘ کا مظاہرہ کر کے صاف طور پر اقلیتوں کا ’مذاق‘ اڑا رہے تھے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

آخرکار وطن عزیز کے جمہوری اقدار کی حفاظت کادعویٰ کرنے والے اورعوام کو حب الوطنی کا سبق پڑھانے والے ’عزتمآب‘ اتنے مایوس اور احساس کمتری کا شکار کیوں ہیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے جمہوریت کو علی الاعلان پیروں تلے کچلنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر ان کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ 17ویں لوک سبھا کے اجلاس کے آغاز کے موقع پر پیر کو جب نو منتخب اراکین پارلیمنٹ کو لوک سبھا میں حلف دلایا جارہا تھا تب عوامی نمائندے ملک کی حفاظت اور ترقی کی قسم کھانے کے ساتھ ہی متنازعہ نعرے لگا کر ’انتہا پسندی‘ کا مظاہرہ کرکے صاف طور پر اقلیتوں کا ’مذاق‘ اڑا رہے تھے۔

Published: 20 Jun 2019, 7:10 PM IST

سیاست کے مندر میں جہاں سماج کے ہر طبقے کے افراد موجود تھے وہاں متنازعہ مذہبی نعرے لگا کرحکمراں پارٹی اور اس کے حلیفوں نے دیگر پارٹیوں کے اراکین کو بھی ایسا کرنے پر مجبور کیا مگر اس موقع پرمسلم اراکین پارلیمنٹ کی دانشمندی کی تعریف کی جائے گی جو انتہا پسندوں کی سازش کا شکار نہیں ہوئے۔ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب خود وزیراعظم نریندر مودی ایک دن پہلے کہتے نظر آئے تھے کہ پارلیمنٹ میں بڑی تعداد میں نئے چہرے آئے ہیں تو ان کی نئی سوچ سے ہی نئے ہندوستان کی تعمیر ہوگی۔ مودی کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ نیا ہندوستان نئی سوچ کے ساتھ بنے۔ مگر وزیراعظم نریندرمودی کی پارٹی کے ہی ممبران پارلیمنٹ نے ایوان زیریں میں ایسے کردار کا مظاہرہ کیا جس سے نئے ہندوستان کی تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ہے۔

Published: 20 Jun 2019, 7:10 PM IST

لوک سبھا میں ہونا تویہ چاہیے تھا کہ نو منتخب عوامی نمائندوں سمیت سبھی اراکین بیک آواز یہ قسم کھاتے کہ اپنی مدت کارمیں نوجوانوں کو روزگار، خواتین کی حفاظت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے کام کریں گے۔ مگرایم آئی ایم کے اسد الدین اویسی جب حلف لینے کے لئے آئے تو بی جے پی ممبران پارلیمنٹ نے ’وندے ماترم‘ اور’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ حالانکہ اویسی ہمیشہ کی طرح زیادہ سمجھدار نکلے اور انہوں نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ اور اونچی آواز میں یہ نعرے لگائے جائیں لیکن بی جے پی ممبران پارلیمنٹ کو ’بھارت ماتا‘ تبھی کیوں یاد آئیں، جب اویسی حلف لینے کے لئے کھڑے ہوئے؟ کیا وہ انہیں اس نعرے سے مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے تھے؟ کیا وہ یہ پیغام دے رہے تھے کہ مسلم اراکین ’بھارت ماتا‘ سے چڑھتے ہیں؟ کیا اپنے عمل سے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ ’وندے ماترم‘ اور‘بھارت ماتا کی جے‘ سے اس ملک کے اقلیتوں کو پرہیز ہے؟

Published: 20 Jun 2019, 7:10 PM IST

اویسی جب حلف لے رہے تھے تو وزیر اعظم مودی ایوان میں نہیں تھے، لیکن اگر ہوتے بھی تو کیا وہ اپنے ممبران پارلیمنٹ کو ایسی حرکت کرنے سے روکتے؟ کیا وہ انہیں یاد دلاتے کہ محض چند ہی دن پہلے انہوں نے لوک سبھا انتخابات میں جیت کے بعد بی جے پی کا نعرے ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ میں ’سب کا وشواس‘ بھی جوڑا ہے؟ کیا بی جے پی دوسروں کو مشتبہ ثابت کر کے، دوسروں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کر کے ہی وشواس جیتنے میں بھروسہ کرتی ہے؟۔

Published: 20 Jun 2019, 7:10 PM IST

بھگوا اراکین کی نعرے بازی کے درمیان اویسی نے بھی حلف لینے کے بعد نعرہ تکبیر بلند کیا اور ساتھ میں’جے ہند‘ بھی جوڑ دیا۔ اس طرح ان کی طرف سے حساب برابر ہو گیا۔ ’وندے ماترم‘ اور’بھارت ماتا کی جے‘ ایک طرف ہو گئے اور ’اللہ اکبر‘ اور ’جے ہند‘ دوسری طرف۔ آخر اویسی کو بھی یہ تقسیم شدہ سیاست اتنی ہی راس آتی ہے، جتنی سنگھ پریوار اور بی جے پی کو، دونوں کی سیاست اسی طرح چلتی ہے۔

Published: 20 Jun 2019, 7:10 PM IST

اس کے کچھ دیر بعد حلف لینے آئیں ہیما مالنی نے ’رادھے-رادھے کرشنم وندے جگت گرو‘ کا نام لیا۔ ان سب کے ایک دن پہلے پرگیہ ٹھاکر نے سنسکرت میں حلف لیتے ہوئے اپنے باپ کا نام نہ لے کر اپنے گرو کا نام شامل کر لیا تھا جس پر اراکین نے اعتراض کیا اورعبوری اسپیکر کی ہدایت پر پرگیہ کو صحیح حلف لینا پڑا۔

Published: 20 Jun 2019, 7:10 PM IST

ایک طرح سے دیکھیں تو یہ بہت بڑی باتیں نہیں ہیں، آپ انہیں نظر انداز کر سکتے ہیں۔ آخر اس ملک نے اظہار رائے کی جو آزادی دی ہے، اسی کا یہ بھی حصہ ہے کہ لوگ اپنے حلف میں باقی اقدار پر عمل کرتے ہوئے اپنے عقائد کا بھی اظہار کر سکیں۔ یہ تب تک ہے جب تک محض عقائد کے اظہار تک محدود ہو مگرجب کسی کو 'چڑھانے' یا مشتعل کرنے کی نیت سے نعرہ لگایا جائے تو اس سے جمہوریت کے مندر سے نفرت اورانتہا پسندی کو پیغام دینا سمجھا جائے گا۔

Published: 20 Jun 2019, 7:10 PM IST

ہماری پارلیمنٹ کی خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اس میں ملک کا تنوع جھلکتا ہے۔ طرح طرح کے لوگ طرح طرح کی پوشاکوں اور طرح طرح کے انداز سے پارلیمنٹ آتے ہیں، اپنی اپنی زبانوں میں حلف لیتے ہیں۔ حالانکہ اس میں بھی آہستہ آہستہ ہندی کے علاوہ انگریزی میں حلف لینے کا چلن بڑھتا گیا ہے۔ لیکن مسلم رکن کی حلف برداری پر جب آپ ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگانے شروع کرتے ہیں تومسلم رکن کا نہیں بلکہ ’بھارت ماتا کی توہین‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ ’وندے ماترم‘ سے ’بھارت ماتا‘ کو جوڑنا بھارت ماتا کو چھوٹا کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ’وندے ماترم‘ آزادی کی لڑائی کے دور میں اہم گیت رہا ہے لیکن ’وندے ماترم‘ کو لے کر ایک طبقہ اپنا اعتراض رکھتا رہا ہے۔ ’بھارت ماتا کی جے‘ کے ساتھ ایسا کوئی اعتراض نہیں ہے۔

Published: 20 Jun 2019, 7:10 PM IST

افسوس کا مقام یہ ہے کہ بی جے پی لیڈروں کو یہ احساس بھی نہیں ہے کہ ان کی سیاست سب سے پہلے ان علامات کو چھوٹا بنا رہی ہے جو اس ملک میں سب کومنظور اورعام چلن میں رہے ہیں۔ رام سے کسی کو عداوت نہیں ہے لیکن ’جے شری رام‘ کا نعرہ جب ایک جارحانہ سیاست کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے تو رام اچانک دوسروں کو ڈرانے لگتے ہیں۔ ’بھارت ماتا‘ احترام کا موضوع ہے لیکن جب کسی لیڈر کے حلف لیتے وقت ایک ہتھیار کی طرح اس کا استعمال ہوتا ہے تو وہ شائد بے بس دیکھتی رہ جاتی ہوگی۔ حکمراں بی جے پی اور اس کے حلیف اپنے جمہوریت مخالف طرزعمل سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، اسے بتانے یا لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے مگر ہم نے اپنی جمہوریت سے جوسبق سیکھا ہے وہ اقدارکی حفاظت ہے اور ہم ہمیشہ اسی سبق کو دہراتے رہیں گے۔

Published: 20 Jun 2019, 7:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 20 Jun 2019, 7:10 PM IST