سیاسی

ملک کے محافظین سے حکومت کا امتیازی سلوک

انتخابات میں بی جے پی کے لیڈر فوج کی کارکردگی کو ’مودی کی کارکردگی‘ ثابت کرکے جذباتی عوام کا ووٹ حاصل کرنے کے جگاڑ میں رہتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

خواتین کومساوی حقوق دلانے اور انہیں خود مختار اورخود کفیل بنانے کے اپنے دعووں پر وزیراعظم نریندرمودی کتنے سنجیدہ ہیں اس کا اندازہ مرکزی حکومت کے حالیہ بیان سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے جس میں بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ بری فوج میں کمانڈر اسامیوں کے لئے افسرعورتیں موزوں نہیں ہوں گی کیونکہ فوج میں موجود مرد عورتوں کی قیادت کو تسلیم کرنے کے لیے ابھی تک تیار نہیں ہوسکے ہیں۔ حکومت کی دلیل ہے کہ عورتوں کی گھریلو ذمہ داریاں بہت ہوتی ہیں اور سب سے بڑا خطرہ اس وقت آئے گا جب خواتین افسر جنگی قیدی بنالی جائیں گی۔ بعض خواتین افسروں نے مطالبہ کیا تھا کہ کمیشن ملنے کے بعد ان کو فوج کی کمانڈ کرنے کی ذمہ داریاں سپرد کی جائیں گی۔ اسی کی نفی کرنے کے لئے مرکزی حکومت نے اپنی معروضات پیش کی تھیں۔

Published: 06 Feb 2020, 6:30 PM IST

حکومت دلیل دے رہی ہے کہ فوج میں ہر سطح پر مرد بھرے ہوئے ہیں، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے اور ان علاقوں کی اپنی الگ پسند اور ناپسند ہوتی ہے۔ انہوں نے سماج کے ایسے معیار بنا رکھے ہیں جن میں فوج کے مرد عورتوں کو کمانڈر کے طور پر قبول کرنے کے لئے ابھی تک تیار نہیں ہوسکے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کی طرف سے دلیل دی گئی ہے کہ تعیناتی کے معاملہ میں مردوں اور عورتوں کو ایک ہی پلڑے میں نہیں رکھا جاسکتا ہے کیونکہ ان کی جسمانی ساخت مختلف قسم کی ہے۔ اس کے علاوہ حالات کا مقابلہ کرنے کا بھی معاملہ ہے ایسی صورت میں لڑائی کی کمان عورتوں کو نہیں دی جاسکتی۔

Published: 06 Feb 2020, 6:30 PM IST

حکومت کا کہنا ہے کہ اگر عورتوں کو ان عہدوں پر تعینات کیا گیا تو مسلح افواج کی ہیئت بدل جائے گی اور عورتوں کو پیش آنے والے خصوصی حالات مثلاً استقرار حمل، زچگی اور بچوں کی پرورش بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مرکزی حکومت کی معروضات کی کاٹ کرتے ہوئے بی جے پی ایم پی مینا کشی لیکھی اور ایشوریہ بھٹی نے خواتین افسر کے وکیل کی حیثیت سے کہا کہ کئی عورتوں نے ناسازگار حالات میں غیر معمولی شجاعت کا مظاہرہ کیا تھا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ خاتون افسر منسٹی اگروال نے فلائٹ کمانڈر کی حیثیت سے جب ونگ کمانڈر ابھینندن نے پاکستان کے ایف16 طیارہ کو مار گرایا تھا تو انہوں نے بڑی خوبی سے ان کی رہنمائی کی تھی جس کے صلہ میں ان کو یدھ سیوا میڈل سے نوازا گیا تھا۔ اس سے بھی پہلے متالی مدھو میتا کو سینا میڈل دیا گیا تھا کیونکہ جب کابل کے ہندوستانی سفارت خانہ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا تو انہوں نے بڑی بہادری کا مظاہرہ کیا تھا۔

Published: 06 Feb 2020, 6:30 PM IST

مرکزی حکومت کا بہرحال یہ کہنا تھا کہ مسلح فوج قربانی کا تقاضا کرتی ہے اور اس ضمن میں فوجی عملہ کے پورے خاندان کو اثرات کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔ ان میں قابل ذکر علیحدگی کا مسئلہ ہوتا ہے، برابر تبادلے ہوتے ہیں جس سے بچوں کی تعلیم پر برا اثر پڑتا ہے اور شوہر کی موجودگی بھی ایک مسئلہ ہوتی ہے۔ عورتوں کو حاملہ ہونے کی وجہ سے اور بعد میں بھی دیگر متعلقہ ضرورتوں کی وجہ سے فوج کی ڈیوٹی سے دور رہنا پڑتا ہے۔ اگر شوہر اور بیوی دونوں فوج میں ہیں تو مسائل اور بھی پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔

Published: 06 Feb 2020, 6:30 PM IST

فوج کے بیشتر کارناموں کا کریڈٹ لے کراپنی پیٹھ خود تھپتھپانے والی مودی حکومت ویسے توسرحدوں پرتعینات ملک کے محافظین اور صنف نازک کے حوالے سے بڑے بڑے دعوے کرتی رہتی ہے اور انتخابات میں بی جے پی کے لیڈر فوج کی کارکردگی کو ’مودی کی کارکردگی‘ ثابت کرکے جذباتی عوام کا ووٹ حاصل کرنے کی جگاڑ میں رہتے ہیں لیکن انتخابات کے بعد (حکومت ہو یا بی جے پی) ’جس کے نام پر ووٹ مانگ رہے تھے‘ انہیں جوانوں سے اگلے انتخابات تک منہ موڑ لیتے ہیں۔ حکومت کی عدم توجہی کا نتیجہ ہے کہ فوج میں خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔

Published: 06 Feb 2020, 6:30 PM IST

ان حالات میں ضروری ہے کہ بیان بازی سے اوپر اٹھ کر ملک کے محافظوں کے مسائل کا تدارک کیا جائے اور انہیں وہ سہولیات فراہم کی جائیں جن سے فوجیوں کو ذہنی کشیدگی سے نجات مل سکے۔

Published: 06 Feb 2020, 6:30 PM IST

چند روز کی ہی بات ہے جب وزیراعظم نریندر مودی دہلی کے کڑ کڑ ڈوما علاقے میں ملک فوج کی حالت سدھارنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اپنی پیٹھ تھپتھپا رہے تھے، اسی وقت سیاچن، لداخ اور ڈوکلام میں موجود ہندوستانی فوجیوں کو خوراک کی کمی، برف پر چمکتی تیز دھوپ سے بچنے کے لئے لگائے جانے والے مخصوص چشمے اور جوتے تک نہ مل پانے کی خبریں سامنے آئی ہیں۔ 18 سے 32 ہزار فٹ بلندی والے سیاچن اور دوسرے برفیلے فارورڈ پوسٹ میں جوانوں کے پاس ان چیزوں کی کمی کی بات سی اے جی کی تازہ رپورٹ میں کہی گئی ہے جسے کچھ دن پہلے ہی راجیہ سبھا میں پیش کی گئی تھی۔

Published: 06 Feb 2020, 6:30 PM IST

سی اے جی کی رپورٹ میں جو کہا گیا ہے وہ انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کسی بھی غیر متوقع صورت حال کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جوانوں کے پاس اس طرح کی چیزوں کی کمی پہلے بھی رہی ہے اور فوج کے پاس ہتھیاروں اور دیگر ساز و سامان کی کمی کا معاملہ واضح طور پر 1999 کی کارگل جنگ کے وقت سامنے آیا تھا۔ کارگل کے16 سال بعد جنرل وی پی ملک نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ حالانکہ حالات تب سے بہتر ہیں لیکن فوج آج بھی اسلحہ اور دیگر سازو سامان کی کمی سے پریشان ہے۔

Published: 06 Feb 2020, 6:30 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 06 Feb 2020, 6:30 PM IST