سیاسی

بی جے پی کو ہوشیار رہنے کی ضرورت، دہلی کا ووٹ بی جے پی کو اقتدار میں لانے کے لئے نہیں

بی جے پی کو یاد رکھنا چاہئے کہ آج بھی 54 فیصد سے زیادہ دہلی کے عوام اس کے خلاف ہیں اور اسے صرف 45 فیصد سے زیادہ لوگوں کی حمایت ملی ہے یعنی کانگریس اور عام آدمی پارٹی کو ملنے والا ووٹ ان کے خلاف ہے

<div class="paragraphs"><p>دہلی میں جیت کے بعد بی جے پی کا جشن / آئی اے این ایس</p></div>

دہلی میں جیت کے بعد بی جے پی کا جشن / آئی اے این ایس

 
IANS

حقیقت یہی ہے کہ عام آدمی پارٹی دہلی میں اقتدار سے بے دخل ہو چکی ہے اور کئی سال بعد دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی ہے۔ عام آدمی پارٹی کے ووٹوں میں دس فیصد کی کمی واقع ہوئی، تاہم وہ جیتنے والی جماعت بی جے پی سے محض دو فیصد ووٹ پیچھے رہی۔ 2019 میں جس جماعت کو دہلی کے 53 فیصد عوام کی حمایت حاصل تھی، 2025 کے انتخابات میں اسے 43 فیصد ووٹ ملے، جبکہ بی جے پی کو اس کے مقابلے میں سات فیصد زائد ووٹ حاصل ہوئے۔

Published: undefined

دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج کے بعد یہ بات گشت کرنے لگی کہ عام آدمی پارٹی کی شکست کے لئے کانگریس ذمہ دار ہے، پہلے تو ایسا نہیں ہے دوسرا یہ کہ اگر ایسا ہے تو کیا ایک سیاسی پارٹی انتخابات میں حصہ لینا بند کر دے؟ کانگرس کا عام آدمی پارٹی کی اس شکست میں کوئی کردار نہیں ہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ عوام نے کانگریس کو اچھی پارٹی سمجھتے ہوئے بھی کانگریس کے حق میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا اور اس کو صرف چھ فیصد سے تھوڑا زیاد ووٹ ملے ہیں۔ ملک کی اقلیتیں اور دلت کانگریس کو چاہتے ہیں لیکن انہوں نے دہلی میں بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کو ترجیح دی ہے اور اپنی رائے عام آدمی پارٹی کے حق میں دی جبکہ وہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی سے ناخوش ہیں اور کانگریس کو ان دونوں کے مقابلے اچھا سمجھتے ہیں۔

Published: undefined

یہ بھی کانگریس کے خلاف غلط پروپیگنڈہ ہے کہ وہ تنظیمی اعتبار سے بہت کمزور ہے اور اس کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک ملک کی سیاست میں مذہب کا حاوی ہونا، دوسرا اقتدار کے منصب پر بیٹھے سیاسی رہنماؤں کا ذرائع ابلاغ پر قبضہ ہونا۔ ملک کے عوام پر مذہبی نشہ حاوی ہونے کے پیچھے بھی دو وجوہات ہیں، ایک ملک کے سرمایہ کی تقسیم میں عدم توازن اور بڑھتی بے روزگاری، دوسرا سوشلزم کا خاتمہ۔ سرمایہ کی تقسیم میں عدم توازن اور بڑھتی بے روزگاری کی وجہ سے عوام میں مذہبی رجحان بڑھا، جس کی وجہ سے غریب اور بے روزگار طبقہ مذہبی کی جانب زیادہ مایل ہوا اور اس کا فائدہ سیاسی رہنماؤں اور سرمایہ دار طبقہ نے اٹھایا۔ سوشلزم کے خاتمے نے اس مذہبی رجحان کے بڑھنے میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ لوگوں کو اپنے تمام مسائل کا حل سرمایہ میں نظر آنے لگا۔

Published: undefined

دوسری وجہ ذرائع ابلاغ ہے، جس نے حکومت سے سوالات کرنا بند کر دئے اور حکومت کا حصہ بن گیا۔ اقتدار پر قابض سیاسی رہنماؤں کو اس وقت کا انتظار تھا، کیونکہ ذرائع ابلاغ ہی عوام کو اصل ایشوز اور مسائل سے روشناس کراتا تھا اور ان سے سوال کرتا تھا۔ ذرائع ابلاغ کو اپنے قبضہ میں رکھنے کے لئے بی جے پی اور عام آدمی پارٹی نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے میڈیا گھرانوں کو اشتہار کے ذریعہ اپنے قبضہ میں کر لیا اور کیا شائع ہوگا اور کس خبر اور سیاسی پارٹی کو ترجیح دی جائے گی اس کا تعین اشتہار کرنے لگے، جس کی وجہ سے کئی اہم مسائل پر بحث نہیں کی گئی اور کئی سیاسی پارٹیاں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان کانگریس پارٹی کو اٹھانا پڑا اور بی جے پی اور عام آدمی پارٹی فائدے میں رہیں، جنہوں نے دہلی انتخابات میں کانگریس کے تعلق سے یہ مشہور کیا کہ وہ تو اقتدار میں آئے گی، کہیں پر بھی نہیں ہیں، اس لئے اپنا ووٹ کیوں ضائع کیا جائے۔ جبکہ دہلی کے عوام میں کانگریس کی شبیہ بھی ترقی کو اہمیت دینے والی پارٹی کی تھی اور اس کے امیدواروں نے بھی بہت سخت محنت کی اور عوامی مسائل کو اٹھایا۔

Published: undefined

بی جے پی کو اس جیت کے بعد اس بات کو فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ان کے خلاف آج بھی 54 فیصد سے زیادہ دہلی کے عوام ہیں ان کو صرف 45 فیصد سے زیادہ لوگوں کی حمایت ملی ہے یعنی کانگریس اور عام آدمی پارٹی کو ملنے والا ووٹ ان کے خلاف ہے۔ کچھ لوگوں نے جو ان کو ووٹ دیا ہے وہ بھی کیجریوال سے جان چھڑانے کے لئے دیا ہے۔ لگتا ہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کے دن پورے ہو گئے ہیں اور دہلی کے عوام کی بی جے پی پہلی پسند نہیں ہے، چاہے دہلی والے لوک سبھا کی ساتوں سیٹیں بی جے پی کو جیتا دیں یا دہلی کے مڈل کلاس کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے بی جے پی نئے نئے ٹیکس کیوں نہ لاگو کر دے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined