سیاسی

بہار: مجبوری کی یہ شادی کب تک چلے گی؟... سہیل انجم

دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مجبوری کی یہ شادی کتنے دنوں تک چلتی ہے اور دونوں میں طلاق کی نوبت کتنے عرصے میں آتی ہے، کیونکہ بہر حال طلاق تو ہونی ہے اور اس حکومت کا 5 سال مکمل کرنا ناممکن نظر آتا ہے

پٹنہ: این ڈی اے قانون ساز پارٹی کے اجلاس میں موجود بی جے پی کے سینئر لیڈر اور مرکزی وزیر راج ناتھ سنگھ، جے ڈی یو کے سربراہ اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار و دیگر / یو این آئی
پٹنہ: این ڈی اے قانون ساز پارٹی کے اجلاس میں موجود بی جے پی کے سینئر لیڈر اور مرکزی وزیر راج ناتھ سنگھ، جے ڈی یو کے سربراہ اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار و دیگر / یو این آئی Abhisek Saha

بہار کے اسمبلی انتخابات کے نتائج زمینی سچائیوں اور ایکزٹ پول کی قیاس آرائیوں کے برعکس نکلے۔ سوہ سب تو عظیم اتحاد کی کامیابی کی پیشین گوئی کر رہی تھیں۔ بہار کے عوام بھی اس بار تبدیلی کے حق میں تھے۔ وہ پندرہ برسوں سے قائم نتیش کمار کی حکومت کو بدلنا چاہتے تھے۔ عظیم اتحاد کی انتخابی ریلیوں میں وہ اپنی اس خواہش کا برملا اظہار کر رہے تھے۔ ان کی خواہش آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو کے اتحاد کی حکومت بنوانے کی تھی۔ مہا گٹھ بندھن کے جلسوں میں نظر آنے والا جوش خروش بھی اسی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ لیکن ای وی ایم کے شکم سے این ڈی اے کی کامیابی کی ولادت ہوئی اور ایک بار پھر وہی حکومت بن رہی ہے جس سے لوگ نالاں اور ناراض تھے۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST

جو انتخابی نتیجہ ہے وہ بڑا ہی مشکوک ہے۔ آر جے ڈی کی جانب سے ووٹوں کی گنتی میں بدعنوانی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ اس نے الیکشن کمیشن سے ان حلقوں میں دوبارہ گنتی کرانے کا مطالبہ کیا ہے جہاں شکست و فتح کا فرق بہت باریک ہے۔ اس کا الزام ہے کہ اس کے ان امیدواروں کو ہرا دیا گیا جو کم ووٹوں کے فرق سے جیت رہے تھے۔ اور این ڈی اے کے ان امیدواروں کو جتا دیا گیا جو کم ووٹوں کے فرق سے ہار رہے تھے۔ اس کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ایک حلقے میں آر جے ڈی امیدوار کامیاب ہو گیا تھا۔ کمیشن کی جانب سے اس سے جیت کا سرٹی فکٹ لینے کو کہا گیا لیکن پھر کچھ دیر کے بعد کہہ دیا گیا کہ وہ ہار گیا ہے۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST

آر جے ڈی کا کہنا ہے کہ ابتدائی گنتی میں عظیم اتحاد کے حق میں زبردست لہر تھی۔ لیکن دوپہر آتے آتے این ڈی اے کی ہوا چلنے لگی اور شام ہوتے ہوتے اس کو سبقت دکھا دی گئی۔ اس دوران دوپہر سے شام تک کئی گھنٹے تک انتخابی نتیجہ کو منجمد کر دیا گیا۔ ان لوگوں کا الزام ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ اپنی شکست کی صورت میں نتیجہ بدلا جا سکے۔ آر جے ڈی ترجمان منوج جھا کا تو یہاں تک الزام ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے دفتر میں ایک اہم افسر کی موجودگی میں اور وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر انتخابی نتیجہ تبدیل کیا گیا۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST

حالانکہ الیکشن کمیشن نے بدعنوانی کے الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس پر کسی کا دباؤ نہیں تھا اور اس نے آزادانہ انداز میں کام کیا۔ اس نے دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ آر جے ڈی نے اعلان کیا ہے کہ اگر کمیشن نے اس کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ بہر حال این ڈی اے کو مہا گٹھ بندھن سے محض بارہ ہزار ووٹ زیادہ ملے ہیں۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST

موجودہ انتخابی نتائج کے مطابق آر جے ڈی پہلے، بی جے پی دوسرے اور جنتا دل یو تیسرے نمبر پر ہے۔ بی جے پی نے سب سے بڑی پارٹی بننے اور نتیش کمار کا قد چھوٹا کرکے ریاست میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے کیا کیا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اس نے این ڈی اے کے اپنے ہی سب سے بڑے حلیف اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے خلاف لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈر چراغ پاسوان کا استعمال کیا۔ چراغ نے جنتا دل یو کے خلاف بڑی تعداد میں امیدوار اتارے اور نائب وزیر اعلیٰ سوشیل مودی کا کہنا ہے کہ چراغ پاسوان نے کم از کم بیس سیٹوں پر جنتا دل یو کو نقصان پہنچایا ہے ورنہ اس کی سیٹیں اور زیادہ ہوتیں۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST

وہ ایسا کہہ کر بی جے پی کو اس سازش سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر نتیش کمار کی سیٹیں کم آئی ہیں تو اس کی ذمہ داری چراغ پر نہیں بلکہ بی جے پی پر عاید ہوتی ہے۔ چراغ نے تو کھل کر کہا تھا کہ میں نے امت شاہ کو بتایا تھا کہ میں تنہا لڑوں گا جس پر وہ خاموش رہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انتخابی مہم کے دوران بھی نہ تو وزیر اعظم مودی نے اور نہ ہی کسی بڑے لیڈر نے چراغ کے خلاف کوئی بیان دیا۔ جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کی پشت پر بی جے پی کا ہی ہاتھ تھا۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST

بہر حال بی جے پی نتیش کی سیٹیں کم کرکے ان کا قد چھوٹا کرنے میں تو کامیاب رہی لیکن وہ نمبر ون پارٹی بننے سے پیچھے رہ گئی۔ آر جے ڈی ایک سیٹ زیادہ جیت کر پہلی پارٹی بن گئی ہے۔ اگر بدعنوانی کے الزامات میں سچائی ہے تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر گنتی صاف شفاف انداز میں ہوئی ہوتی تو نتیجہ کچھ اور نکلتا اور ریاست میں عظیم اتحاد کی حکومت بنتی۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST

بہر حال بی جے پی نتیش کا قدم چھوٹا کرنے کے باوجود تن تنہا اپنی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسے نتیش کمار کے کندھے پر بیٹھ کر ہی حکومت کے ایوانوں تک پہنچنا پڑ رہا ہے۔ بی جے پی کی بڑی خواہش رہی ہے کہ وزیر اعلیٰ اس کی جماعت سے ہو۔ لیکن موجودہ صورت حال میں یہ ممکن نہیں رہا اور بی جے پی کف افسوس مل کر رہ گئی۔ اس کے لیڈروں کے دل میں بار بار یہ خیال آرہا ہوگا کہ ہم جنتا دل یو سے زیادہ سیٹیں لا کر بھی اپنا وزیر اعلیٰ نہیں بنوا پا رہے ہیں۔ ہمیں نتیش کے احسانوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST

ادھر نتیش بھی اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ان کے سامنے بھی بی جے پی کی پیشکش تسلیم کر لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر وہ وزیر اعلیٰ نہیں بنیں گے تو کیا کریں گے۔ عظیم اتحاد کے ساتھ جانے سے رہے۔ 2015 میں وہ اسی سے الگ ہوئے تھے اور لالو یادو نے ان کا نام ’’پلٹو رام‘‘ رکھ دیا تھا۔ آر جے ڈی کے لیڈر تیجسوی یادو عظیم اتحاد کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے امیدوار تھے۔ اگر نتیش ان سے اتحاد کرتے ہیں تو انھیں وزیر اعلیٰ کی کرسی گنوانی پڑے گی اور پھر یہ بھی ایک سوال ہے کہ تیجسوی انھیں اپنائیں گے یا نہیں۔ کیونکہ بہر حال نتیش کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اقتدار کی خاطر کیا کچھ کریں گے۔ لہٰذا نتیش کے سامنے بھی بی جے پی کی پیشکش مان لینے یا اس کا احسان اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST

البتہ اس حکومت میں بی جے پی کو ہی بالادستی حاصل رہے گی اور بی جے پی نتیش پر دباؤ ڈال ڈال کر آر ایس ایس کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے فیصلے کروائے گی۔ نتیش اس کے مطالبات ماننے کو مجبور ہوں گے۔ اگر وہ نہیں مانیں گے تو ان کی کرسی چلی جائے گی۔ گویا نتیش انتہائی ذلت آمیز انداز میں حکومت کریں گے۔ ادھر بی جے پی کی بھی مجبوری ہے کہ وہ نتیش کمار کو ہی وزیر اعلیٰ بنائے۔ اگر اپنے وزیر اعلیٰ کی ضد کرے گی تو نتیش ساتھ چھوڑ سکتے ہیں اور اس صورت میں اقتدار کی چابی اس کے ہاتھ میں آتے آتے رہ جائے گی۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST

گویا اگر چہ الیکشن میں این ڈی اے کی جیت ہو گئی ہے لیکن اس جیت نے بی جے پی اور جنتا دل یو دونوں کے گلے میں پھندے بھی ڈال دیے ہیں۔ دونوں پارٹیاں چاہ کر بھی ان پھندوں سے نجات حاصل نہیں کر پائیں گی۔ یعنی دونوں کے سامنے یہ صورت حال ہے کہ نہ اگلتے بن رہا ہے اور نہ ہی نگلتے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مجبوری کی یہ شادی کتنے دنوں تک چلتی ہے اور دونوں میں طلاق کی نوبت کتنے عرصے میں آتی ہے۔ کیونکہ بہر حال طلاق تو ہونی ہے۔ اس حکومت کا پانچ سال مکمل کرنا ناممکنات میں سے نظر آتا ہے۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 15 Nov 2020, 8:11 PM IST