سیاسی

تعصب ریاست کے لیے زہر ہلاہل... نواب علی اختر

عوام کو چاہیے کہ ملک و ملت کی خاطر کسی بھی سیاسی رہنما کے پیچھے اس قدر دیوانہ نہ ہوا جائے کہ وہ کچھ بھی کہے اور اس کی بات مانتے رہیں۔

تصویر نواب
تصویر نواب 

ہندوستان کو دنیا میں منفرد شناخت دلانے میں مثالی اور باعث افتخار تاریخ کا اہم کردار رہا ہے جس میں درجنوں فرقوں اور طبقات کی مشترکہ ثقافت، فرقہ وارانہ ہم آہنگی سرفہرست کہی جاسکتی ہے۔ انہیں سب باتوں کی موجودگی میں ہندوستان کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا خطاب حاصل ہوا تھا جو ہمارے ملک کی سب سے بڑی طاقت رہی ہے، مگر پچھلے کچھ سالوں میں تنگ نظر حکمرانوں کے قول وفعل اور مخالف سماج کے ساتھ متعصبانہ رویئے کی وجہ سے ملک کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی وطن عزیز کا وقار متاثر ہوا ہے۔

Published: undefined

تعصب ایک بہت بری بیماری ہے۔ یہ جس قوم کے ساتھ لگ جائے اسے تباہ تو کرتی ہی ہے لیکن ساتھ ہی دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ حق کو سمجھتے اور جانتے بوجھتے ہوئے بھی اس کی مخالفت کرنا اور اپنے نظریات کے ساتھ چپکے رہنا یا اپنے سیاسی قائدین، مذہبی رہنماؤں یا اپنی قوم اور قبیلے کی حمایت کرتے رہنا تعصب کہلاتا ہے۔ یہ ایسا ناسور ہے جس کے مضر اثرات بہت دور تک محسوس کیے جاتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات میں عصبیت ایک اہم موضوع ہے جس سے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں سختی سے منع کیا گیا ہے۔

Published: undefined

تعصب کی وجہ سے بہت سی قومیں تباہ ہوئیں اور ان کے مضر اثرات آج تک دکھائی دیتے ہیں۔ تعصب قومی ہو، لسانی ہو، صوبائی ہو یا سیاسی، کسی بھی طرح کا تعصب قوموں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ امت مسلمہ کی عظیم الشان سلطنت، سلطنت عثمانیہ جو امت مسلمہ کی وحدت کی علامت تھی، اسے بھی اسی عصبیت نے تباہ کر دیا۔ عرب مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ ڈالا گیا کہ تم عربی ہو، تم پر عجمی کیوں حکومت کر رہے ہیں؟ اس بات پر انہوں نے سلطنت عثمانیہ سے علیحدگی کی تحریک چلائی اور امت مسلمہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔

Published: undefined

حدیث مبارکہ میں ہے کہ کسی عجمی کو کسی عربی پر یا کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں، فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے لیکن عربوں نے آنحضرت کے اس ارشاد کو پس پشت ڈال کر قومی عصبیت کی وجہ سے ترکوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور امت مسلمہ کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا۔ لسانی اور صوبائی تعصب آج بھی ہمارے درمیان ایک بہت بری شکل میں موجود ہے، وقتاً فوقتاً شمالی، جنوبی، مشرقی نعرے کانوں سے ٹکراتے ہیں جو صرف اور صرف صوبائی یا لسانی تعصب کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ ان نعروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

Published: undefined

اگرچہ ملک کے کئی علاقے بہت سی بنیادی سہولیات سے محروم رہے ہیں، یہ ہمیں تسلیم ہے لیکن اس کا حل تعصب اور امتیاز نہیں ہے۔ لسانی اور صوبائی تعصب ملک و قوم کے لیے خطرناک تو ہوتا ہی ہے لیکن سب سے زیادہ خطرناک سیاسی تعصب ہے اور یہ تعصب کی ایک بدترین مثال ہے کہ عوام کسی سیاسی لیڈر کی وجہ سے تعصب کا شکار ہوجائیں یا کوئی سیاسی لیڈر ایسے تعصب کا شکار ہوکہ وہ کسی دوسرے کو اپنے جیسا سمجھے ہی نہیں اور اس کے چاہنے والے بھی ایسے ہوں کہ وہ اپنے سیاسی لیڈر کے علاوہ کسی اور کی بات پر کان دھرنے کو تیار نہ ہوں۔

Published: undefined

یہ ملک و قوم کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ یہی تعصب آہستہ آہستہ خانہ جنگی کی طرف لے جاتا ہے اور پھر ریاستیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ جس ملک میں سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف اس قسم کا تعصب رکھتے ہیں اور عوام کے اندر خطرناک زہر بھر دیتے ہیں تو پھر ریاست کا درست سمت پر چلنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور پوری دنیا میں اس کا کوئی مقام نہیں رہتا، ہر طرف اس کا مذاق بن جاتا ہے۔ عالمی میڈیا کو اگر دیکھا جائے تو وہاں پر ہندوستان کے حوالے سے کیسی خبریں چلائی جاتی ہیں جنہیں پڑھ اور سن کر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

Published: undefined

 خانہ جنگی کا شکار ہونے والے مختلف ممالک کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ وہاں ابتدا ایسے ہی حالات سے ہوتی ہے کہ سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا بیج بونے میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ پھر لوگ ان کے خلاف اسلحہ اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتے اور نتیجتاً پورا ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ پھر یا تو وہ ریاست تباہ ہوجاتی ہے یا اس میں مارشل لاء لگ جاتا ہے اور اس صورت میں بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکمرانوں کو اس بات کا دھیان رکھنا چاہئے کہ کسی بھی قسم کا تعصب ریاست کے لیے زہر ہلا ہل ثابت ہوتا ہے۔

Published: undefined

موجودہ وقت میں یہی دیکھا گیا ہے کہ جو کوئی حکومت سے اختلاف کرے یا سیاسی مقابلہ آرائی کو ترجیح دے اسے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سیاسی قائدین کے علاوہ سماجی جہد کار ہوں، صحافی ہوں، وکلاء ہوں یا پھر انسانی حقوق کے کارکن ہوں یہاں تک کہ طلباء کے خلاف بھی گرفتاریوں اور مقدمات کے اندراج سے گریز نہیں کیا جاتا ہے۔ مرکزی حکومت یا پھر ریاستوں کی بی جے پی حکومتوں کے خلاف موقف اختیار کرنے اور حکومت کی خامیوں اور ناکامیوں کو اجاگر کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ یہی تعصب ہے جو ملک اور سماج کے لیے خطرناک ہے۔

Published: undefined

ان حالات میں عوام کو چاہیے کہ ملک و ملت کی خاطر کسی بھی سیاسی رہنما کے پیچھے اس قدر دیوانہ نہ ہوا جائے کہ وہ کچھ بھی کہے اور اس کی بات مانتے رہیں۔ کسی رہنما کے اہل ہونے کے لیے گلے پھاڑ پھاڑ کر ’وندے ماترم‘ یا ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا دینا کافی نہیں ہے۔ اس لیے عوام کو آنکھیں کھول لینی چاہئیں اور کسی کے کہنے میں نہیں آنا چاہیے بلکہ اپنے اندر خود شعور پیدا کرنا چاہیے اور اپنے سیاسی مخالفین کو ذاتی دشمن نہیں بلکہ تعصب کو پس پشت ڈال کر ان کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک کے بڑے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined