سیاسی

اُتر پردیش کے ہجومی تشدد مخالف بل پر ایک نظر... سہیل انجم

ہجومی تشدد سے متعلق قانون وضع کرنے کا مطالبہ مرکزی حکومت سے ایک عرصے سے کیا جا رہا ہے۔ یہ مطالبہ پارلیمنٹ کے اندر بھی کیا گیا اور باہر بھی۔ لیکن حکومت ہے کہ اپنے کانوں میں تیل ڈالے بیٹھی ہوئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

اتر پردیش کے لاء کمیشن نے موب لنچنگ یعنی ہجومی تشدد اور قتل کے خلاف ازخود کارروائی کرتے ہوئے ایک مسودۂ قانون تیار کیا ہے جس کے مطابق حملہ آوروں کو سات سال اور اپنی ڈیوٹی سے غفلت برتنے پر پولس افسران یا مجسٹریٹ کو تین سال تک قید کی سزا ہو سکے گی۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

اس مسودہ کا نام ’’اترپردیش ہجومی تشدد مخالف بل 2019‘‘ ہے۔ کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ آدتیہ ناتھ متل کی رپورٹ کے مطابق موجودہ قوانین کافی نہیں ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف مجرموں کو سزا دی جائے بلکہ غفلت برتنے کے لیے انتظامیہ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

مسودے میں کہا گیا ہے کہ ہجومی تشدد کو الگ جرم مانا جائے تاکہ شرپسندوں میں خوف پیدا ہو۔ اس میں سفارش کی گئی ہے کہ ہجوم کے تشدد سے متاثر شخص کے زخمی ہونے کی صورت میں حملہ آوروں کو سات سال تک کی جیل اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ، شدید چوٹیں آنے پر دس سال تک کی جیل اور تین لاکھ روپے جرمانہ اور ہلاک ہونے کی صورت میں بامشقت عمر قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کی سزائیں سنائی جائیں۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مقامی پولس افسر یا ضلع مجسٹریٹ اگر ڈیوٹی سے غافل پایا جائے تو اسے ایک سال کی جیل ہو جو تین سال تک بڑھائی جا سکے اور پانچ ہزار جرمانہ کیا جائے۔ ماحول خراب کرنے والوں کو چھ ماہ کی جیل ہو۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

بظاہر یہ ایک بہت اچھا بل ہے۔ کیونکہ پہلی بار کسی ریاست نے ایسا کوئی بل وضع کیا ہے جو ہجومی تشدد سے نمٹنے کے لیے ہو۔ حالانکہ ایسا قانون وضع کرنے کا مطالبہ مرکزی حکومت سے ایک عرصے سے کیا جا رہا ہے۔ یہ مطالبہ پارلیمنٹ کے اندر بھی کیا گیا اور باہر بھی۔ لیکن حکومت ہے کہ اپنے کانوں میں تیل ڈالے بیٹھی ہوئی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ 2005 سے ہی فرقہ وارانہ تشدد مخالف بل پارلیمنٹ میں معرض التوا میں ہے۔ اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

اس بل میں بھی فسادات کی صورت میں مقامی انتظامیہ کو ذمہ دار ٹھہرانے کا انتظام کیا گیا ہے۔ اس بل کو پاس کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس پر بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

ایسے میں اگر یو پی کے لاء کمیشن نے اس سلسلے میں ایک بل وضع کیا ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ یو پی بھی ایک ایسی ریاست ہے جہاں ہجومی تشدد کے واقعات متواتر ہو رہے ہیں۔ جس روز یہ بل منظر عام پر آیا اسی روز اناؤ کے ایک مدرسہ کے بچوں کو جو کہ ایک میدان میں کھیلنے گئے تھے جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ جب انھوں نے انکار کیا تو ان پر حملہ کر دیا جس میں کئی طلبہ زخمی ہیں۔ ایک طالب علم کا ہاتھ بھی ٹوٹ گیا ہے۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

سب سے پہلے تو اس کی سزاؤں پر اگر غور کیا جائے تو وہ ناکافی ہیں۔ ہجومی تشدد میں متاثر شخص کے ہلاک ہونے کی صورت میں ذمہ داروں کو صرف عمر قید کی سزا کا انتظام کیا گیا ہے۔ جبکہ ہندوستان میں آج بھی قتل کی سزا پھانسی ہے۔ لہٰذا عمر قید کی سزا کو پھانسی میں بدلا جانا چاہیے جبھی انصاف ہو سکے گا۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

بہر حال یو پی کے لاء کمیشن نے تو اپنا فرض ادا کر دیا لیکن کیا ریاستی حکومت بھی اس بارے میں سنجیدہ ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ وہ بالکل سنجیدہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اناؤ کے واقعہ میں بی جے پی کی یوتھ ونگ کے ممبران کے شامل ہونے کی تردید کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طلبہ سے جے شری رام کا نعرہ لگوانے کی کوشش نہیں کی گئی تھی بلکہ بدنام کرنے کے لیے ایسا الزام لگایا گیا ہے۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

ایسے معاملات میں یوگی آدتیہ ناتھ کا رویہ کیسا رہا ہے سب کو معلوم ہے۔ بساہڑہ کے محمد اخلاق کے قتل کے بعد انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس پر گائے کی اسمگلنگ کا کیس درج کیا جائے۔ جبکہ اسے فریج میں گائے کے گوشت کی افواہ پر ہلاک کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یوگی کا مطالبہ تھا کہ اس پر گائے کی اسمگلنگ کا کیس درج کیا جائے۔ اور بھی ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن میں ان کی جانبداری پوری طرح بے نقاب ہوتی ہے۔ ایسے میں اس بل کا کیا حشر ہوگا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

حالانکہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کو روکیں۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ نے بھی ان واقعات پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ایسے واقعات کو روکنے پر زور دیا ہے۔ اس نے گزشتہ سال تمام ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے یہاں ہر ضلع میں ایک ایک نوڈل افسر مقرر کریں جن پر ایسے واقعات کو روکنے کی ذمہ داری ہو۔ لیکن شاید چند ہی ریاستوں نے اس پر کارروائی کی ہے باقی نے عدالت عظمیٰ کے حکم کو لائق اعتنا نہیں سمجھا۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے ہجومی تشدد کے واقعات میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ’’انڈیا اسپنڈ‘‘ نامی ایک تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2017 کے درمیان ایسے واقعات میں 97 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ اس لیے ہوا کہ مجرموں کے خلاف اس طرح سے کارروائی نہیں ہوتی جیسی کہ ہونی چاہیے۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

اگر حکومتوں کے پاس شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کی سیاسی قوت ارادی ہو تو ایسے واقعات روکے جا سکتے ہیں۔ اگر ایک بار کسی حملہ آور کو عبرت ناک سزا مل جائے تو دوسرے شرپسندوں میں خوف طاری ہو جائے گا اور وہ ہجوم کی شکل میں اکٹھا ہو کر ایسی واردات انجام دینے کے بارے میں سو بار سوچیں گے۔ اگر ایسا ہو تو کسی نئے قانون کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ ملک میں اتنے قوانین ہیں کہ ایسی وارداتیں روکی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے قوت ارادی کی ضرورت ہے اور ہمیں نہیں لگتا کہ حکومت اس بارے میں نیک نیت ہے۔ اگر ہوتی تو ایسے واقعات رونما ہی نہیں ہوتے۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 14 Jul 2019, 7:10 PM IST