شاعری

معراج فیض آبادی: چندن تو چندن ہے، تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو... معین شاداب

معراج فیض آبادی کے 5 شعری مجموعے منظر عام پر آئے۔ پہلا شعری مجموعہ ’بے خواب ساعتیں‘ اس کے بعد ’ثبات‘، ’دائم‘ اور ’ناموس‘ شائع ہوئے۔ ایک مجموعہ دیوناگری رسم الخط میں ’تھوڑا سا چندن‘ کے نام سے چھپا۔

معراج فیض آبادی
معراج فیض آبادی 

ایک مرتبہ ’فیس بک‘ پر ایک کرم فرما نے مجھے فرینڈ ریکویسٹ بھیجی۔ ساتھ میں انھوں نے ایک پیغام بھی ارسال کیا، جس میں انہوں نے لکھا تھا۔ ’’ایک ادبی محفل میں جب آپ نے وسیم بریلوی صاحب کے بارے میں کہا تھا کہ اگر مجھے موقع ملے تو میں لفظ تہذیب لکھوں اور اس کے آگے وسیم صاحب کی تصویر لگادوں، تو پیچھے بیٹھے معراج فیض آبادی صاحب نے آپ کی پیٹھ تھپتھپائی تھی، وہ منظر آج بھی دھیان میں ہے۔ ‘‘

Published: undefined

اپنی نظامت کے یہ جملے تو میرے گوشۂ ذہن میں محفوظ نہیں رہے اور نہ ہی میں یہ یاد کر پا رہا ہوں کہ یہ کس مشاعرے کا واقعہ ہے، البتہ اتنا ضرور یاد ہے کہ معراج فیض آبادی نے نہ جانے کتنے موقعوں پر میری نظامت اور شاعری کی حوصلہ افزائی کی۔ ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ کرت پور(ضلع بجنور) میں مشاعرہ تھا۔ معراج فیض آبادی صاحب نظامت کر رہے تھے، انہوں نے مجھے دعوت دی۔ میں نے کلام سنانا شروع کیا۔ ایک شعر پر سامعین کا رد عمل ذرا سرد رہا۔ معراج صاحب کی نظر میں اس شعر کی جتنی ستائش ہونی چاہیے تھی شاید اتنی داد نہیں ملی تھی۔ وہ سامعین سے مخاطب ہوئے، حضرات آپ نے معین شاداب کے اس شعر کو توجہ سے نہیں سنا۔ پھر معراج صاحب نے وہ شعر دہرایا اور کہا کہ اب ایک مرتبہ پھر یہ شعر سنیے اور مجھے وہ شعر مکرر پڑھنے کے لیے کہا۔ میں نے وہ شعر پڑھا تو سامعین نے توقع سے زیادہ پذیرائی کی اور پھر میں نے جو بھی سنایا اس پر خوب داد ملی۔ اس دوران معراج بھائی بھی مائیک سے مسلسل حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ حالانکہ اس دوران ہمارے بعض سینئر شعرا نے چٹکی لیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ’معین شاداب کو سیّد ہٹ کرا کے چھوڑے گا‘۔ معراجؔ فیض آبادی کا یہ احسن سلوک صرف میرے ساتھ نہیں تھا بلکہ وہ نئے شعرا کا اسی طرح حوصلہ بڑھاتے تھے۔ ایسے نہ جانے کتنے واقعات ہیں جو معراج فیض آبادی کی خورد نوازی اور نئے لکھنے والوں کی ہمت افزائی کا ثبوت ہیں۔ کسی مشاعرے کی رپورٹ میں اگر انھیں میرا کوئی شعر اچھا لگتا تو وہ فون کرتے اور حوصلہ بڑھاتے، یہ ان کا معمول تھا۔

Published: undefined

مجھے معراجؔ فیض آبادی کی نظامت میں مشاعرے پڑھنے کا بھی شرف حاصل رہا اور ان مشاعروں کی نظامت کرنے کا بھی جن میں وہ بحیثیت شاعر شامل رہے، لیکن کسی بھی موقع پر میں نے ان کی شفقت اور محبت میں کمی محسوس نہیں کی۔

Published: undefined

معراج ؔفیض آبادی ان شعرا میں سے تھے جنہوں نے اپنی شاعری اور اپنے رکھ رکھاؤ سے مشاعرے کے ادبی وقار کو قائم رکھا ہے۔ آج مشاعرے جس طرح اپنی ادبی اہمیت اور حیثیت تیزی کے ساتھ کھوتے جارہے ہیں ایسے میں معراج فیض آبادی کی کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے۔ معراجؔ فیض آبادی عمر کے آخری کچھ برسوں میں سرطان کا شکار تھے۔ اس موذی مرض کا انہوں نے مرادانہ وار مقابلہ کیا، لیکن صرف یہی پانچ، چھ برس کیا وہ تو تمام عمر کینسر سے لڑتے رہے۔ اس کینسر سے جس نے قوم، معاشرے اور ملک کو جکڑ رکھا ہے۔ احساس کمتری، بے عملی، بداخلاقی، بدگمانی، ناانصافی اور قدروں کے زوال جیسی نہ جانے کتنی خرابیوں کے کینسر کا مقابلہ، وہ اپنی صالح فکر اور صحت مند سخن کے ذریعہ کرتے رہے۔

Published: undefined

معراج ؔبھائی کسی زمانے میں ترنم سے کلام سناتے تھے لیکن ان کی شناخت تحت الفظ کے قابل ذکر شاعر کے طور پر قائم ہوئی۔ دل و دماغ پر اثر کرنے والا لہجہ اور ذہن و دل میں اتر جانے والا انداز بیان انہیں وہی انفراد عطا کرتا تھا جو ان کی شاعری کو حاصل تھا۔ بلاشبہ ان کا شمار صف اول کے ان چند شعرا میں ہوتا تھا جو اپنے خاص تحت کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔

Published: undefined

معراج ؔصاحب کی ذات بھی کئی صفات کی حامل ہے اور ان کی شاعری بھی۔ ان کی شخصیت اور فن میں توازن قدر مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اعتدال نے ان کے اندر ایک تخلیقی اعتماد پیدا کر دیا تھا۔ ان کی شاعری صرف بے بسی کی وہ داستان نہیں ہے جو کسی فرد کسی قوم اور کسی ملک کی ترجمانی کرتی ہے، بلکہ حال کا مرثیہ، مستقبل کا رزمیہ اور ماضی کی شوکت و رعنائی کا نوحہ بھی ہے۔ ان کی شاعری کسی فرد یا قوم کو شام غم سے نکال کر صبح مسرت کی بشارت دیتی ہے۔

Published: undefined

معراج ؔفیض آبادی نے مشاعروں میں شہرت سے لے کر مقبولیت اور مقبولیت سے لے کر محبوبیت تک کا سفر وقار کے ساتھ طے کیا۔ ان کی بیشتر غزلیں مقبول ہوئیں۔ بہت سے اشعار لوگوں کے حافظے کا حصہ بن گئے۔ ان کے بعض شعروں نے تو مقبولیت کی وہ حدیں پار کیں کہ وہ ان کی شناخت بن گئے۔ مثلاً ان کے یہ دو شعر:

مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ

میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے

اپنے کعبے کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہے

اب ابابیلوں کے لشکر نہیں آنے والے

Published: undefined

کئی شاعر ایسے ہیں کہ اگر کوئی گلوکار ان کی کوئی غزل گا دیتا ہے تو مشاعرے کے اسٹیج پر اس کا پروپیگنڈہ کرتے نہیں تھکتے کہ فلاں سنگر نے یہ غزل گائی ہے۔ لیکن معراج صاحب نے کبھی کسی مشاعرے میں اپنے منہ سے اس کا تذکرہ نہیں کیا۔ وہ کبھی خود نمائی یا خود ستائی کے مرتکب نہیں ہوئے۔ معراج فیض آبادی کی بھی بعض غزلوں کو جگجیت سنگھ نے اپنی آواز دی تھی۔

معراج فیض آبادی کے پانچ شعری مجموعے منظر عام پر آئے۔ پہلا شعری مجموعہ ’بے خواب ساعتیں‘ تھا اس کے بعد ’ثبات‘، ’دائم‘ اور ’ناموس‘ شائع ہوئے۔ ایک مجموعہ دیوناگری رسم الخط میں ’تھوڑا سا چندن‘ کے نام سے چھپا۔

Published: undefined

بے خواب ساعتوں کے شاعر معراج فیض آبادی نے معاشرے کے خوابوں کا نیا تعبیر نامہ لکھنے کی کدوکاوش کی۔ وہ اداس راتوں کی بیداری اور جاگتی راتوں کے اضمحلال سے اپنی شاعری کو دھوپ چھاؤں بخشتے رہے۔ ایک ایسا غیور شاعر جس نے پیاسا رہنا پسند کیا لیکن اپنی پیاس کے آگے تشنہ لب دریا کو بے آبرو نہیں ہونے دیا۔ ان کی شاعری انفس و آفاق کے ناموس کا تحفظ کرتی رہی بالکل اسی طرح جیسے دو معصوم ہتھیلیاں کسی چراغ کو خودسر آندھیوں سے بچانے کی بس بھر کوششوں میں مصروف ہوں۔

Published: undefined

معراج فیض آبادی کا لہجہ اور لہجے کی تہذیب، ان کی فکر اور فکر کی شائستگی، زبان اور زبان کی شستگی، بیدار ذہنی اور ذہنی بیداری کے اجالے، ان کی کھلی آنکھیں اور اس کا بے کراں ادراک.....یہ تمام عوامل ’بے خواب ساعتوں‘ سے وجود میں آنے والی شاعری کو ’ثبات‘ بخشتے ہیں اور یہ ثبات ان کے نام کو قائم ہی نہیں ’دائم‘ بھی رکھے گا۔ ’چندن‘ تو چندن ہے چاہے تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined

,
  • سیبی کی کارروائی ایک بار پھر اڈانی گروپ، بی جے پی اور ان کے حامیوں کے جھوٹے دعووں پر مہر: کانگریس

  • ,
  • ’لگتا ہے وزیر اعظم ایمس کا جائزہ لینے آ رہے ہیں‘، پی ایم مودی کے دربھنگہ دورہ پر تیجسوی یادو کا طنز