شاعری

ساغر صدیقی: خود کو برباد کر لینے والا شاعر

ساغر صدیقی اردو کے وہ شاعر تھے جنہوں نے غربت، شہرت اور خود فراموشی کے سفر میں اپنی زندگی فنا کر دی۔ انہوں نے فٹ پاتھ پر دم توڑا، مگر ان کی شاعری نے انہیں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا

<div class="paragraphs"><p>ساغر صدیقی کی اے آئی سے بہتر کی گئی تصویر</p></div>

ساغر صدیقی کی اے آئی سے بہتر کی گئی تصویر

 

اردو ادب میں کوئی قلمکار ایسا نہیں گزرا جس نے فٹ پاتھ پر کسمپرسی کی حالت میں دم توڑا ہو۔ اور اس کے مزار پر باقاعدہ ہر سال عرس کا اہتمام ہوتا ہو۔ اردو شعرو سخن کی دنیا میں ایسا واحد شاعر ساغر صدیقی ہے جس نے لاہور میں ایک ہوٹل کے فٹ پاتھ پر دم توڑا۔ وہ بے خودی کے عالم میں خود کو بھی بھول جاتے تھے لیکن شاعری ایسی کی جس نے انہیں اردو ادب میں لازوال بنا دیا۔ ساغر اس لحاظ سے بھی منفرد ہیں کہ ان کی زندگی پر ایک فرانسیسی مصنف نے نیم فکشنل ناول تحریر کیا ہے۔ اس درد کے مارے شاعر کی تخلیقی صلاحیتوں اور شعری کائنات کی سیر کرنے سے پہلے اس کے خاندانی پس منظر اور تعلیم و تربیت پر ایک نظر ڈالنا مناسب ہے۔

ساغر صدیقی کا حقیقی نام محمد اختر ہے۔ وہ 14 اگست 1928 کو انبالہ میں ایک غربت زدہ گھر میں پیدا ہوئے۔ وہ ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے۔ غربت کی وجہ سے اعلی تعلیم کا حصول ناممکن تھا۔ انہوں نے جو کچھ پڑھا اپنے ہمسایہ حبیب حسن سے پڑھا۔ ساغر نے ذہانت غضب کی پائی تھی۔ کم عمری میں ہی اردو کی اتنی استعداد حاصل کر لی تھی کہ لوگ ان سے خط لکھواتے تھے۔ حبیب حسن کی صحبت میں ہی ان کے اندر شاعری کا شوق پروان چڑھا۔

Published: undefined

آٹھ نو برس کی عمر میں ہی شعر موزوں کرنے لگے تھے۔ انہوں نے غربت سے تنگ آ کر روزگار کی تلاش میں انبالہ کو الوداع کہا اور امرتسر چلے گئے۔ ان کی عمر اس وقت تیرہ چودہ برس تھی۔ امرتسر میں ساغر نے لکڑی کی کنگھیاں بنانے والے ایک کارخانے میں ملازمت کر لی اور کنگھیاں بنانے کا فن سیکھ لیا۔ اس درمیان وہ مشق سخن کرتے رہے۔ شروع میں ناصر حجازی کے تخلص سے شاعری کرتے تھے لیکن بعد انہوں نے ساغر صدیقی کے نام سے شعر گوئی شروع کر دی۔ وہ اپنے کچھ بے تکلف دوستوں کو شعر سناتے تھے۔

1944 میں امرتسر میں ایک آل انڈیا مشاعرہ منعقد ہوا، جس میں میں شرکت کے لیے لاہور کے بعض شاعر بھی مدعو تھے۔ ان میں ایک صاحب کو معلوم ہوا کہ ساغر صدیقی نام کا ایک ’لڑکا‘ بہت اچھے شعر کہتا ہے۔ انہوں نے منتظمین سے کہہ کر ساغر کو مشاعرے میں پڑھنے کا موقع دلوا دیا۔ ساغر کی آواز میں بلا کا سوز تھا۔ انہوں نے ترنم سے کلام پڑھ کر اس مشاعرے میں سب کا دل جیت لیا۔ اس مشاعرے نے انھیں شہرت کی بلندی تک پہنچا دیا۔ اس وقت ان کی عمر 15-16 سال تھی اس کے بعد ساغر لاہور و امرتسر کے مشاعروں میں بلائے جانے لگے۔ شاعری ساغر کے لیے شہرت کے سبب کے ساتھ ساتھ وسیلۂ روزگار بھی بن گئی۔ انہوں نے کنگھیوں کا کام چھوڑ دیا۔

Published: undefined

1947 میں تقسیم وطن کے دوران 19 سال کی عمر میں وہ لاہور آ گئے۔ وہاں کے مشاعروں میں بھی انہوں نے اپنی سریلی آواز اور کلام کے بل پر شہرت حاصل کر لی۔ لاہور میں ساغر نے اصلاح کے لیے لطیف انور گورداسپوری سے رجوع کیا۔ لطیف انور سے مشورہ سخن نے ساغر کی شعر گوئی کو مزید صیقل کیا۔ پتلی جسامت، بل کھائے بال، بوسکی کی قمیض اور میٹھی آواز والے ساغر کی جانب فلم ساز بھی متوجہ ہوئے۔

وہ فلموں کے لئے گانے بھی لکھنے لگے۔ ان کے لکھے کئی گانے بہت مشہور ہوئے۔ 1947 سے لے کر 1952 کا زمانہ ساغر کے لیے سنہرا دور ثابت ہوا۔ کئی روزناموں، ماہوار ادبی جریدوں اور ہفتہ وار رسالوں میں ساغر کا کلام بڑے نمایاں انداز میں شائع ہوتا تھا۔ ان کے پاس پیسہ اور شہرت آئی تو خوشامد پرستوں کی بھیڑ بھی ان کے آس پاس جمع ہو گئی۔ وہ بعض اوباش قسم کے احباب کے چکر میں پڑ کر نشے کی لت میں مبتلا ہو گئے۔ 1952 کے بعد ساغر کی زندگی خراب صحبت کی بدولت ہر طرح کے نشے کا شکار ہو گئی۔ وہ بھنگ، شراب، افیون اور چرس وغیرہ استعمال کرنے لگے۔ اس عالم مدہوشی میں بھی مشقِ سخن جاری رہتی وہ غزل، نظم، قطعہ اور فلمی گیتوں کی شاہکار تخلیق کرتے گئے۔ عالم مدہوشی میں بھی لوگ اکثر انہیں پکڑ کے مشاعرے میں لے جاتے تھے۔ وہ میلے کچیلے اور پھٹے کپڑوں میں اسٹیج پر گم سم بیٹھے رہتے۔ جب ان کا نام پکارا جاتا تو کوئی ان کو ٹہوکا دے بتاتا کہ انکا نام پکارا گیا ہے۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے مائک تک پہونچتے تھے اور نہایت پرسوز آواز میں ترنم کے ساتھ کلام پڑھتے تھے۔

Published: undefined

چھپا کے دل میں غموں کا جہان بیٹھے ہیں

تمہاری بزم میں ہم بے زبان بیٹھے ہیں

یہ اور بات کہ منزل پہ ہم پہونچ نہ سکے

مگر یہ کم ہے کہ راہوں کو چھان بیٹھے ہیں

فغاں ہے درد ہے سوز و فراق و داغ و الم

ابھی تو گھر میں بہت مہربان بیٹھے ہیں

اب اور گردش تقدیر کیا ستائے گی

لٹا کے عشق میں نام و نشان بیٹھے ہیں

ساغر صدیقی کی شاعری کے موضوعات کا جائزہ لینے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ذاتی دکھوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی دکھوں کے بھی مارے ہوئے تھے۔ وہ معاشرتی نا برابری اور ہر قسم کے استحصال کے خلاف تھے۔ وہ تباہ حال لوگوں کی نجات چاہتے تھے۔ وہ لوگوں کی تباہی پر نوحہ و ماتم کرنے کے بجائے ان کی زندگی میں شعور کی شمع روشن کرنے کی اپنے دل میں تڑپ رکھتے تھے۔ ساغر کے پاس جو شعور تھا انہوں نے اس کو ہی ہتھیار بنا کر اپنی ذات کا بھی دفاع کیا اور فکری گمراہی کے خلاف جہاد کیا۔ معاشرتی رشتوں کے کھوکھلے پن پر وہ خون کے آنسو روتے تھے۔ انہوں نے انسانوں کی غلامی کے خلاف زور و شور کے ساتھ آواز بلند کی۔

ساغر کی شعری تخلیقات میں سماجی اور کائناتی مشاہدوں کا عکس صاف نظر آتا ہے۔ ساغر کی شاعری میں درد، محبت، جدائی اور انسانی کرب کی گہری جھلک ملتی ہے۔ ان کی غزلیں سادہ الفاظ میں گہرے جذبات بیان کرتی ہیں، جو سننے والوں کے دل کو چھو لیتی ہیں۔

Published: undefined

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

۔۔۔۔

میرے دامن میں شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں

آپ پھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں

دور تک کوئی ستارہ ہے نہ کوئی جگنو

مرگ امید کے آثار نظر آتے ہیں

حشر میں کون گواہی مری دے گا ساغر

سب کے سب تیرے طرفدار نظر آتے ہیں

۔۔۔۔

میں وہ آوارہ تقدیر ہوں کہ یزداں کی قسم

لوگ دیوانہ سمجھ کر جسے سمجھاتے ہیں

۔۔۔۔۔

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راہزن آدمی رہنما آدمی

بارہا بن چکا ہے خدا آدمی

کچھ فرشتوں کی تقدیس کے واسطے

سہ گیا آدمی کی جفا آدمی

۔۔۔۔۔۔

ساغر کی زندگی کا کافی عرصہ خبط الحواسی میں لاہور کی سڑکوں پر گزرا۔ وہ موری دروازے، سرکلر روڈ، داتا دربار، ٹکسالی دروازہ، لوہاری دروازہ، میکلو روڈ اور بادامی باغ میں نگاہیں نیچی کئے چلتے پھرتے دکھائی دیتے تھے یا گندگی کے ڈھیر کے پاس نشے میں دھت سگریٹ پیتے نظر آتے۔ وہ خود فراموشی کی کیفیت میں اپنے آپ سے ہی باتیں کرتے تھے۔ ساغر اکثر و بیشتر میلے کچیلے کپڑوں کے اوپر کالی چادر لپیٹے رکھتے تھے۔ وہ بھی کئی جگہ سے پھٹ چکی تھی۔ اکثر انہیں اس حلیے میں دیکھ کر بچے ان کے پیچھے چادر والی مائی کہہ کر چلاتے تھے اور وہ گھبرا کر وہاں سے تیز قدموں کے ساتھ نکل جاتے تھے۔

Published: undefined

ساغر کے بال جٹا دھاری سادھوؤں کی طرح ان کے کاندھوں گردن اور چہرے پر جھولتے رہتے تھے۔ کئی کئی ماہ تک نہ نہاتے تھے اور نہ شیو کرتے تھے۔ ساغر اپنے وجود سے بے نیاز رہتے تھے۔ جنوری 1974 میں ان کے اوپر فالج نے حملہ کیا۔ جس کی وجہ سے ان کا دایاں ہاتھ ہمیشہ کے لیے بے کار ہو گیا۔ پھر کچھ دن بعد منہ سے خون آنے لگا، جسم سوکھ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گیا تھا۔ ان کے سچے دوست احباب اس زندگی سے انہیں نکالنے کی کوشش کرتے تھے لیکن جس شخص نے خود کو تباہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہو اسے کون بچا سکتا ہے کچھ روز بعد وہ پھر اسی غلاظت بھری زندگی میں لوٹ جاتے تھے۔ ان سے محبت کرنے والے بھی یہ نہیں جان پائے کہ آخر ساغر کو کون سا غم اندر اندر کھائے جا رہا تھا۔ وہ زیادہ کسی سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔ بیشتر اوقات اپنے آپ میں گم رہتے اور اپنے آپ سے باتیں کرتے رہتے تھے۔ اکثر ایک کتا ان کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ اس کو کھلاتے پلاتے رہتے تھے۔ شفقت سے اس کے بدن کو سہلاتے تھے۔

آخر وہ منحوس دن بھی آ گیا جو ساغر کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا۔ ساغر صدیقی کا آخری وقت داتا دربار کے سامنے پائلٹ ہوٹل کے فٹ پاتھ پر گذرا۔ 46 برس کی عمر میں ان کی وفات 19 جولائی 1974 کی صبح کو اسی فٹ پاتھ پر ہوئی۔ انھیں میانی صاحب کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کا کتا بھی ایک سال بعد اسی مقام پر مردہ پایا گیا۔ ساغر کی قبر کسی صوفی کے مزار کی حیثیت اختیار کر گئی۔ ہر سال ان کے مزار پر عرس ہوتا ہے۔

Published: undefined

ان کی موت کے بعد فرانسیسی مصنف جولین کولومیو نے ان کی زندگی پر مبنی ایک نیم فکشنل ناول ’ساغر‘ لکھا۔ سید تنویر شاہ نے اس کو اردو کا قالب عطا کیا ہے۔

مری اجڑی اجڑی سی آنکھوں میں ساغر

زمانے کے رنج و الم سو رہے ہیں

میں نے جن کے لئے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا

پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

نغموں کی ابتدا تھی کبھی میرے نام سے

اشکوں کی انتہا ہوں مجھے یاد کیجئے

آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں

ساغر صدیقی کی زندگی کا قصہ جون ایلیا کے اس شعر کی تفہیم معلوم ہوتا ہے۔

میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined