شاعری

گوہر رضا: احتجاج کا شاعر... جمال عباس فہمی

گوہر رضا کے نزیک عظمت انسان کو اولیت حاصل ہے۔ وہ انسان دوست، امن و مساوات، قومی یکجہتی اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار شاعر ہیں۔ گوہر رضا کا قلمی سفر بنا تھکے اور بنا رکے جاری ہے۔

گوہر رضا: احتجاج  کا شاعر / ویڈیو گریب
گوہر رضا: احتجاج کا شاعر / ویڈیو گریب 

'جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں' کا مزاج لے کر گوہر رضا اس دنیا میں آئے۔ جستجو اور بہتر سے بہتر کی تلاش کا یہ مزاج ان کی فطرت کا خاصہ ہے۔ یہی مزاج انہیں سائنس کی طرف لے گیا اور اسی مزاج نے انہیں سماج میں پھیلی فرقہ پرستی کی آلودگی مذہب، ذات پات اورعلاقاٰئیت کی بنیاد پر نفرت اور نابرابری کے خلاف قلم اٹھانے کو مجبور کیا۔ سائنسی فکر اور شعرو سخن کا بظاہر تو کوئی میل ہے نہیں لیکن گوہر رضا کی شخصیت میں ان دونوں کا خوبصورت اور پراثر امتزاج نظر آتا ہے۔

Published: undefined

17اگست 1956 میں الہ آباد میں وزارت حسین کے گھر میں پیدا ہونے والے گوہر رضا بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کے سب سے بڑے بھائی پروفیسر وصی حیدر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے فزکس ڈیپارٹمنٹ کے صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ ایک بھائی احمر رضا حکومت ہند کے قابل تجدید توانائی محکمہ سے ڈائریکٹر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔ دو بہنیں کوثر ہاشمی او حنا وزارت ہیں، جو درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ والدہ بھی تعلیم یافتہ روشن خیال اور سماجی خدمت کا جذبہ رکھنے والی خاتون تھیں۔ گوہر رضا کی اہلیہ شبنم ہاشمی بھی سماجی کارکن ہیں۔ وہ معروف تھیٹر آرٹسٹ اور سماجی کارکن مقتول کامریڈ صفدر ہاشمی کی ہمشیرہ ہیں۔

Published: undefined

جب وزارت حسین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہوئے تو مع اہل و عیال الہ آباد سے علیگڑھ منتقل ہو گئے۔ گوہر رضا ایک روشن خیال، ترقی پسند اور تعلیم کے دلدادہ ماحول میں پروان چڑھے۔ وزارت حسین نظریاتی اور فکری طور سے کمیونسٹ تھے اور کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ تھے۔ گوہر رضا کا جھکاؤ بھی کمیونزم کی طرف ہونا فطری تھا۔ گوہر رضا نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ایس سی انجینئرنگ 1977 میں اور آئی آئی ٹی دہلی سے 1979 میں ایم ٹیک کیا۔ گوہر رضا اکیڈمی آف سائنٹفک اینڈ انو ویٹیو ریسرچ (اے سی ایس آئی آر) سے بحیثیت پروفیسر اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کمیونکیشن اینڈ انفارمیشن ریسورسیز سے بحیثیت چیف سائنٹسٹ وابستہ رہے۔

Published: undefined

گوہر رضا ایک Multifaceted شخصیت ہیں۔ وہ ایک حساس شاعر، ایک مصنف، ایک سائنسداں، ایک سماجی کارکن، حقوق انسانی کے علمبردار اور ڈاکیو مینٹری فلم ساز ہیں۔ ان کے پہلو میں درد مند دل دھڑکتا ہے۔ وہ ظلم رسیدہ کے حق میں فوری آواز بلند کرتے ہیں۔ ظالم و جابر سے اظہار نفرت اور اظہار بیزاری میں کوئی تاخیر اور تامل نہیں کرتے۔ گجرات کے فساد زدگان ہوں یا ملک بھر میں کہیں کوئی فرد یا طبقہ نفرت، نا انصافی اور تشدد کا نشانہ بنایا جائے تو گوہر رضا کا قلم فوری حرکت میں آجاتا ہے۔ گجرات کے بے گھر افراد کی سماجی اور معاشی حالت زار پر The Wretched کے عنوان سے وہ ایک رپورٹ بھی تیار کرچکے ہیں۔ وہ ملک کی پہلی جنگ آزادی پر 'جنگ آزادی' کے عنوان سے ایک فلم بھی بنا چکے ہیں۔ انہوں نےعظیم مجاہد آزادی بھگت سنگھ پر'انقلاب' نام سے ایک فلم بنائی۔ گوہر رضا نے ’سلام انڈیا' فلم کے لئے نغمے بھی تحریر کئے۔ گوہر رضا جہانگیر آباد میڈیا انسٹی ٹیوٹ کے اعزازی ڈائریکٹر بھی ہیں۔

Published: undefined

گوہر رضا ملک کے ان قلمکاروں کی صف میں نمایاں نظر آتے ہیں جو نا انصافی، نا برابری، نفرت، بنیاد پرستی، تشدد اور فرقہ واریت کے خلاف بے باکانہ اور جرت مندانہ طریقے سے لکھتے ہیں اور مسلسل لکھتے ہیں۔ گوہر رضا کے اندر حب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ اپنے وطن عزیز میں ایک ایسے سماج کی تشکیل کے جویا ہیں جہاں امن و آشتی ہو، فرقہ وارانہ یک جہتی اور محبت ہو، مظلوموں اور دبے کچلے لوگوں کے ساتھ نا انصافی نہ ہو۔ مذہب، علاقائیت اور ذات پات کی بنیاد پر لوگوں میں تفریق نہ ہو۔ حکمراں ایماندار، مخلص اور عوام کے ہمدرد ہوں۔ ان کی پوری شاعری کا مرکز و محور انہی باتوں کے ارد گرد ہے۔

Published: undefined

گوہر رضا گل و بلبل اور محبوب کی زلف گرہ گیر کے اسیر شاعر نہیں ہیں۔ وہ سماج کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھنے والے قلمکار ہیں۔ وہ کسی پر ظلم و ستم ہوتا دیکھتے ہیں تو تڑپ اٹھتے ہیں۔ وہ مذہب کو سیاست میں مدغم کئے جانے کے خلاف ہیں۔ گوہر رضا حصول اقتدار کے لئے مذہب کو استعمال کرنے کے سخت مخالف ہیں۔ ان کی نظر میں انسان سے ہمدردی اور محبت ہی اصل مذہب ہے۔ گوہر رضا یہ نہیں دیکھتے کہ ظلم رسیدہ، ستم دریدہ اور تشدد زدہ کون ہے۔ کس علاقہ کا ہے، کس مذہب کا پیروکار ہے اور کس طبقے سے تعلق رکھتا ہے وہ تو بس ظالم اور ستمگر کا ہاتھ دیکھتے ہیں اور اسی کو لعنت ملامت کرتے ہیں۔ ان کی پوری شعری کائنات اسی دائرے میں ہے۔ گوہر رضا کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ وہ بات کو گھما پھرا کر نہیں کہتے بلکہ نہایت صفائی اور بے باکی سے بالکل عام زبان میں اپنا خیال ظاہر کر دیتے ہیں۔ تشبیہات، استعارات، کنایات اور علامتوں کا سہارا لینے سے پرہیز کرتے ہیں۔ وہ فیض احمد فیض، حبیب جالب، علی سردار جعفری اور کیفی اعظمی جیسے ترقی پسند شعرا سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اپنی بے باک اور جرت مندانہ شاعری کے لئے گوہر رضا کو مخالفتوں اور مخالف پروپگنڈہ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔

Published: undefined

5مارچ 2016 کو دہلی کے شنکر شاد مشاعرے میں گوہر رضا نے ایک غزل پڑھی تھی جس میں مذہب کے لبادے میں لپٹی سیاست کی شر انگیزی پر طنز کرتے ہوئے خوفناک مستقبل سے خبردار کیا گیا تھا۔ چینل زی نیوز نے اس مشاعرے کو افضل پریمی گینگ کا مشاعرہ بتایا تھا۔ گوہر رضا کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی۔ انہیں ملک دشمن بتایا گیا۔ ان پر افضل گرو حامی ہونے کا الزام لگایا گیا۔ گوہر رضا کے خلاف زی نیوز کی مہم کا نتیجہ یہ ہوا کہ گوہر رضا اور ان کے اہل خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ گوہر رضا نے زی نیوز کے خلاف نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈرڈ اتھارٹی (این بی ایس اے) میں شکایت کی۔ این بی ایس اے نے پورے معاملے کا جائزہ لینے کے بعد زی نیوز کو گوہر رضا سے معافی مانگنے کی ہدایت دی۔ 30ستمبر2018 بہت آنا کانی کے بعد آخر کار زی نیوز نے گوہر رضا اور شنکر شاد مشاعرے کے بارے میں اپنے تبصرے پر افسوس ظاہر کیا۔

Published: undefined

گوہر رضا کے دو شعری مجموعے منظر عام پر آکر داد و تحسین حاصل کرچکے ہیں۔ 'جذبوں کی لو تیز کرو' ان کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے۔ ان کا کچھ کلام 'خاموشی' کے عنوان سے ہندی میں بھی شائع ہو چکا ہے۔ ان کی جو نظمیں بہت مقبول ہوئیں ان میں 'گواہی دو' سر فہرست ہے۔ گوہر رضا کی نظم 'گواہی دو' کا اسپینی، فرانسیسی، انگریزی،عربی اور افریقی کے ساتھ ساتھ دیگر کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے۔

Published: undefined

گواہی دو

کہ تم اس دور سے گزرے ہو جب

دورِ خزاں تھا

گواہی دو

کہ بہتے وقت کے دھارے بہت سنگین تھے تب

بہاؤ تیز تھا، اور تیرنا مشکل تھا بے حد

گواہی دو

کہ تم اس دور سے گزرے ہو جب

حکام نے خود کو خدا سمجھا

گواہی دو کہ

تم موجود تھے جب

اس وطن کے پاسبانوں نے،

اندھیری رات میں یلغار بولا تھا

ہر ایک شہری کو

صف آرا کیا تھا

گواہی دو

اندھیری رات تھی اور ملک میں ڈاکہ پڑا تھا

صفیں جب بچھ چکیں ہر جیب خالی ہو چکی تب

غریبوں کے لبوں سے روٹیاں تک چھین لی تھیں

گواہی دو

جُنوں کو سر برہنہ

گھروں میں بستیوں میں گھومتا دیکھا ہے تم نے

گواہی دو

کہ نفرت ساتھ تھی اس کے

گواہی دو

اسی نفرت نے ان کے گھر جلائے

جو اپنے حق کی خاطر شاہراہوں پر کھڑے تھے

گواہی دو

وہ سہمے لوگ دیکھے ہیں کہ جن کے گھر جلے تھے

گواہی دو

دکانوں، درسگاہوں اور گھروں کی

راکھ پیروں سے لپٹ کر رو رہی تھی

گواہی دو

کہ شاہوں کی عدالت نفرتوں سے بھر چکی ہے

عدالت مجرموں کے کٹہرے میں

کھڑی ہے ہاتھ باندھے

صحیح الزام ہے ان منصفوں پر،

کتابوں اور قلم کو بیچ ڈالا

منصفی کو بیچ ڈالا

گواہی دو

یہ سب سستا بکا تھا

گواہی دو

کہ اب انصاف جنتا کی عدالت میں کھڑا ہے

گواہی دو

یقین رکھو

کہ اس دورِ خزاں میں بھی

تمہاری ہر گواہی درج ہوگی

تمہاری ہر گواہی پر یہاں انصاف ہوگا

تمہاری ہر گواہی سے گریباں چاک ہیں جتنے، سلیں گے

تمہاری ہر گواہی سے بہاریں اپنے پیرہن کی زیبائش کریں گی

تمہاری ہر گواہی اگلی نسلوں کے لیے

راہوں میں اجیارا بکھیرے گی

گواہی دو کہ تم پر قرض ہے یہ

گواہی دو کہ تم پر فرض ہے یہ

Published: undefined

شنکر شاد مشاعرے میں گوہر رضا نے یہی غزل پیش کی تھی جس کی بنیاد پر زی نیوز نے ان پر افضل گرو کا حامی ہونے کا الزام لگایا تھا۔

دھرم میں لپٹی وطن پرستی کیا کیا سوانگ رچائے گی

مسلی کلیاں، جھلسے گلشن زرد خزاں دکھلائے گی

یورپ جس وحشت سے اب بھی سہما سہما رہتا ہے

خطرا ہے وہ وحشت میرے ملک میں آگ لگائے گی

جرمن گیس کدوں سے اب تک خون کی بدبو آتی ہے

اندھی وطن پرستی ہم کو اس رستے لے جائے گی

اندھے کنویں میں جھوٹ کی ناؤ تیز چلی تھی مان لیا

لیکن باہر روشن دنیا تم سے سچ بلوائے گی

نفرت میں جو پلے بڑھے ہیں نفرت میں جو کھیلے ہیں

نفرت دیکھو آگے آگے ان سے کیا کروائے گی

فنکاروں سے پوچھ رہے ہو کیوں لوٹائے ہیں سمان

پوچھو کتنے چپ بیٹھے ہیں شرم انہیں کب آئے گی

یہ مت کھاؤ وہ مت پہنو عشق تو باکل کرنا مت

دیش دروہ کی چھاپ تمہارے اوپر بھی لگ جائے گی

یہ مت بھولو اگلی نسلیں روشن شعلہ ہوتی ہیں

آگ کریدوگے چنگاری دامن تک تو آئے گی

Published: undefined

نظم سازش

جب سازش حادثہ کہلائے

اور سازش کرنے والوں کو گدی پر بٹھایا جانے لگے

جمہور کا ہر ایک نقش قدم

ٹھوکر سے مٹایا جانے لگے

جب خون سے لت پت ہاتھوں میں

اس دیش کا پرچم آجائے

اور آگ لگانے والوں کو

پھولوں سے نوازہ جانے لگے

جب کمزوروں کے جسموں پر

نفرت کی سیاست رقص کرے

جب عزت لوٹنے والوں پر

خود راج سنگھاسن فخر کرے

جب جیل میں بیٹھے قاتل کو

ہر ایک سہولت حاصل ہو

اور ہر با عزت شہری کو

صولی پہ چڑھایا جانے لگے

جب نفرت بھیڑ کے بھیس میں ہو

اور بھیڑ ہر ایک چوراہے پر

قانون کو اپنے ہاتھ میں لے

جب منصف سہمے سہمے ہوں

اور مانگیں بھیک حفاظت کی

ایوان سیاست میں پیہم

جب دھرم کے نعرے اٹھنے لگیں

جب مندر، مسجد اور گرجا میں

ہر ایک پہچان سمٹ جائے

جاں لوٹنے والے چین سے ہوں

اور بستی بستی بھوک اگے

جب کام تو ڈھونڈیں ہاتھ مگر

کچھ ہاتھ نہ آئے ہاتھوں کے

اور خالی خالی ہاتھوں کو

شمشیر تھمائی جانے لگے

تب سمجھو ہر ایک گھٹنا کا

آپس میں گہرا رشتہ ہے

یہ دھرم کے نام پہ سازش ہے

اور سازش بے حد گہری ہے

تب سمجھو مزہب و دھرم نہیں

تہذیب لگی ہے داؤ پر

رنگوں سے بھرے اس گلشن کی

تقدیر لگی ہے داؤ پر

اٹھو کہ حفاظت واجب ہے

تہذیب کے ہر میخانے کی

اٹھو کہ حفاظت لازم ہے

ہر جام کی ہر پیمانے کی

Published: undefined

زرد پتوں کا بن

زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے

درد کی انجمن جو مرا دیس ہے

جب پڑھے تھے یہ مصرعے تو کیوں تھا گماں

زرد پتوں کا بن فیض کا دیس ہے

درد کی انجمن فیض کا دیس ہے

بس وہی دیس ہے

جو کہ تاریک ہے

بس اسی دیس تک ہے

خزاں کی ڈگر

بس وہی دیس ہے زرد پتوں کا بن

بس وہی دیس ہے درد کی انجمن

مجھکوں کیوں تھا یقیں

کہ مرے دیس میں

زرد پتوں کے گرنے کا موسم نہیں

مجھکو کیوں تھا یقیں

کہ مرے دیس تک

پت جھڑوں کی کوئی رہگزر ہی نہیں

اس کے دامن پہ جتنے بھی دھبے لگے

اگلی برسات آنے پہ دھل جائیں گے

اب جو آیا ہے پت جھڑ مرے دیس میں

دھڑکنیں زندگی کی ہیں

رک سی گئیں

خنجروں کی زباں رقص کرنے لگی

پھول کھلنے پہ پابنداں لگ گئیں

قتل گاہیں سجائی گئیں جا بجا

اور انصاف صولی چڑھایا گیا

خون کی پیاس اتنی بڑھی آخرش

جام و مینا لہو سے چھلکنے لگے

نام کس کے کروں

ان خزاؤں کو میں

کس سے پوچھوں

بہاریں کدھر کھو گئیں

کس سے جا کر کہوں

زرد پتوں کا بن اب مرا دیس ہے

درد کی انجمن اب مرا دیس ہے

اے مرے ہم نشیں

زرد پتوں کا بن، درد کی انجمن

آنے والے سفیروں کی قسمت نہیں

یہ بھی سچ ہے کہ اس

فیض کے دیس میں

چاند ظلمت کے گھیرے میں جتنا بھی ہو

نور اس کا بکھرتا تھا ہر شب وہاں

پا بہ جولاں سہی پھر بھی سچ ہے یہی

زندگی اب بھی رقصاں ہے اس دیس میں

قتل گاہیں سجی ہیں اگر جا بجا

غازیوں کی بھی کوئی کمی تو نہیں

اور مرے دیس میں

رات لمبی سہی

چاند مدھم سہی

مجھ کو ہے یہ یقیں

خلق اٹھے گی ہاتھوں میں پرچم لئے

صبح پازیب پہنے ہوئے آئے گی

رن پڑے کا بہاروں خزاؤں کا جب

رنگ بکھریں گے اور رات ڈھل جائے گی

زرد پتوں کا بن بھی سمٹ جائے گا

درد کی انجمن بھی سمٹ جائے گی

Published: undefined

مختلف میدانوں میں گوہر رضا کی خدمات کا اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ ان کے شعری مجموعے 'جزبوں کی لو تیز کرو' کو ہندی اکیڈمی نے 2001 میں ایوارڈ سے نوازا۔ 2002 میں دہلی اردو اکیڈمی نے سائنس کے فروغ اور سائنسی موضوعات پر ان کی تحریروں کے لئے انعام سے سرفراز کیا، گوہر رضا کو لیپزی انٹر نیشنل بک فیسٹیول، میڈلن انٹر نیشنل بک فیسٹیول اور جوہانسبرگ میں منعقد ہونے والی کثیر لسانی نشست میں مدعو کیا جاچکا ہے۔ گوہر رضا کے نزیک عظمت انسان کو اولیت حاصل ہے۔ وہ انسان دوست، امن و مساوات، قومی یکجہتی اور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار شاعر ہیں۔ گوہر رضا کا قلمی سفر بنا تھکے اور بنا رکے جاری ہے۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined