پاکستان

رہائی کے بعد نواز شریف خاموش اور اداس

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف سزا کی معطلی کے بعد لاہور کے قریب واقع اپنی رہائش گاہ پر پہنچ چکے ہیں۔ وہ جاتی عمرہ پہنچنے کے بعد بیگم کلثوم نواز کی قبر پر گئے اور کچھ دیر خاموش کھڑے رہے۔

رہائی کے بعد ’’باؤ جی خاموش اور اداس‘‘ ہیں
رہائی کے بعد ’’باؤ جی خاموش اور اداس‘‘ ہیں 

اڈیالہ جیل میں 68 دنوں کی اسیری کے بعد گزشتہ رات جب نوز شریف جاتی عمرہ پہنچے تو پہلے کی طرح ان کو خوش آمدید کہنے کے لیے ان کی اہلیہ کلثوم نواز وہاں موجود نہیں تھیں۔ نواز شریف کی قید کے دوران لندن کے ایک ہستال میں کلثوم نواز کا چند دن پہلے انتقال ہو گیا تھا اور نواز شریف پیرول پر رہائی کے بعد بیگم کلثوم کی نماز جنازہ میں شرکت کے بعد پیر کے روز دوبارہ اڈیالہ جیل پہنچے تھے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کے قریبی ساتھیوں نے بتایا کہ جیل سے رہائی کے بعد بھی نواز شریف زیادہ تر خاموش ہی رہے، انہوں نے کیپٹن (ر) محمد صفدر اور مریم نواز کے برعکس استقبالی کارکنوں کے نعروں کا پرجوش طریقے سے ہاتھ لہرا لہرا کر جواب بھی نہیں دیا۔ اگرچہ مسلم لیگ نون کے کارکنوں نے گزشتہ رات لاہور ائیرپورٹ اور جاتی عمرہ میں استقبالی ریلیوں کا اہتمام کیا تھا۔ جاتی عمرہ کے باہر والی سڑک پر تو کارکنوں نے پھولوں کی پتیاں بچھا کر بڑے بڑے حروف میں خوش آمدید بھی لکھا۔

Published: undefined

پاکستان کے کئی شہروں میں مسلم لیگ نون کے کارکنوں کی طرف سے مٹھائیاں بانٹنے، شکرانے کے نوافل ادا کرنے، خوشی سے بھنگڑا ڈالنے کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں لیکن نواز شریف کے خاندانی ذرائع سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جاتی عمرہ میں اس طرح کا جشن دکھائی نہیں دے رہا، وہاں نواز شریف کی رہائی کی خوشیوں پر بیگم کلثوم نواز کی وفات کا سوگ حاوی ہے۔

Published: undefined

جاتی عمرہ میں موجود شریف فیملی کے ایک ذریعے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف جاتی عمرہ پہنچنے کے بعد بیگم کلثوم نواز کی قبر پر گئے، وہاں ان کی مغفرت کی دعا کی اور کچھ دیر خاموش کھڑے رہے۔ نواز شریف نے زیادہ تر وقت اپنی والدہ اور گھر کے افراد کے ساتھ ہی گزارا۔ اسی دوران انہوں نے ویڈیو لنک پر اپنے بیٹوں حسن اور حسین کے ساتھ بھی تفصیلی بات چیت بھی کی۔

Published: undefined

جمعرات کے روز بھی نواز شریف کے پروگرام میں زیادہ تر نجی مصروفیات ہی رکھی گئی ہیں۔ جمعرات کو نواز شریف کے پروگرام میں ان کی اپنے رشتے داروں سے ملاقات، مسلم لیگ نون کے قریبی رہنماوں سے مشاورت اور قانونی ماہرین سے ملاقات شامل ہے۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے ڈاکٹروں کا ایک پینل ان کے طبی معائنے کے لیے ان کے ہاں وزٹ بھی کرے گا۔

Published: undefined

نواز شریف نے اپنی رہائی کے بعد اپنے مختصر بیان میں کہا ہے کہ ’’میرا ضمیر مطمئن ہے، میں نے کوئی گناہ نہیں کیا اس لیے مجھے یقین تھا کہ اللہ مجھے انصاف دے گا۔‘‘ مولانا فضل الرحمان ، محمود اچکزئی سمیت پاکستان کے متعدد سیاسی لیڈروں نے شہباز شریف کو فون کر کے نواز شریف کی رہائی پر مبارکباد دی ہے۔

Published: undefined

مسلم لیگ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک صحافی ذیشان بخش کا خیال ہے کہ یہ بات درست ہے کہ نواز شریف کی رہائی نے مسلم لیگ نون کے پژمردہ کارکنوں کو نیا جوش اور ولولہ دیا ہے لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ نون کسی بھرپور جشن یا احتجاج کی طرف جاتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

Published: undefined

ان کے بقول اس کی وجہ غالبا ایک تو یہ کہ نواز شریف کی سزا معطل ہوئی ہے، منسوخ نہیں ہوئی اور ان کے خلاف ابھی دو ریفرنسوں کا فیصلہ آنا باقی ہے۔ دوسرے محرم الحرام کی وجہ سے بھی جشن کی کسی تقریب کا انعقاد مناسب نہیں ہے اور ان کے بقول اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ شریف فیملی کے دلوں میں کلثوم نواز کی موت کا دکھ ابھی تازہ ہے۔ نواز شریف بھی ابھی تک غم کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔

Published: undefined

مسلم لیگ نون کے رہنما احسن اقبال نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف ’جھوٹے مقدمے‘ بنائے گئے اور ان مقدمات کا مقصد پری پول دھاندلی کرکے نواز شریف کو الیکشن سے باہر رکھ کر عمران خان کی کامیابی کی راہ ہموار کرنا تھا۔

Published: undefined

دوسری طرف وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے نواز شریف کی رہائی پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ شریف خاندان ابھی بھی ثابت نہیں کر سکا کہ ان کی ملکیت میں اربوں روپے کہاں سے آئے؟ انہوں نے کہا کہ وہ عدالت کے دوسرے فیصلوں کی طرح اس کا بھی احترام کرتے ہیں، ’’ ہم عدالتوں کا مکمل احترام کرتے ہیں، پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں۔‘‘ وزیر اطلاعات کا کہنا تھاکہ حکومت اور عوام کرپشن میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں، قوم چاہتی ہے کہ لوٹی گئی دولت واپس آئے۔

Published: undefined

دریں اثناء پاکستان میں احتساب کے ادارے نیب نے نواز شریف کی رہائی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کے ایک قومی روزنامے سے وابستہ سینئر کلم نگار خالد رسول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف کی رہائی اگر قومی انتخابات سے پہلے ہو جاتی تو انہیں کافی سیاسی فائدہ ہو سکتا تھا لیکن اب اس رہائی سے اگر ضمنی انتخابات میں انہیں کچھ کامیابی مل بھی جاتی ہے تو بھی اس سے قومی اور صوبائی سطح پر بن جانے والے حکومتی سیٹ اپ کو بدلا نہیں جا سکتا۔

Published: undefined

خالد رسول کا ماننا ہے کہ اس رہائی سے البتہ نواز شریف کے اس بیانیے کو بہت تقویت ملے گی کہ ان پر سیاسی بنیادوں پر مقدمات بنائے گئے ہیں اور یہ مقدمات ٹھوس حقائق کی بجائے مفروضوں پر بنا دیے گئے تھے۔ ان کے مطابق اس رہائی نے نیب کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined