
فائل تصویر آئی اے این ایس
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے اپنے ملک کی دو بڑی تیل کمپنیوں پر عائد امریکی پابندیوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پابندیاں ماسکو پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہیں تاہم روس کسی بیرونی دباؤ کے سامنے نہیں جھکے گا۔
Published: undefined
پوتن نے کہا کہ کوئی بھی عزت دار ملک دباؤ میں کچھ نہیں کرتا۔ ان کے تبصرے واشنگٹن کی جانب سے روس کی دو بڑی تیل کمپنیوں روزنیفٹ اور لوکوئیل پر سخت پابندیاں عائد کیے جانے کے بعد سامنے آئے ہیں۔ یہ امریکی اقدام روس کی جانب سے یوکرین میں فوری جنگ بندی پر رضامندی سے انکار کے جواب میں سامنے آیا ہے۔
Published: undefined
پوتن نے دعویٰ کیا کہ وہ پہلے ہی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو خبردار کر چکے ہیں کہ ان پابندیوں سے توانائی کی عالمی منڈی غیر مستحکم ہو سکتی ہے اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کا اثر امریکا پر بھی پڑے گا۔امریکہ اور یورپی ممالک بارہا روس سے جنگ بندی کی اپیل کر چکے ہیں جبکہ پوتن نے مغربی ممالک پر روس کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا ہے۔
Published: undefined
امریکی محکمہ خزانہ نے کہا کہ یہ قدم روس کی جنگ کرنے کی صلاحیت کو محدود کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ دریں اثنا، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اس سے کریملن کی جنگی صلاحیتیں کمزور ہو جائیں گی۔ تاہم روسی وزارت خارجہ نے ان پابندیوں کو مکمل طور پر بیکار قرار دیا اور کہا کہ ان کا روسی معیشت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ پابندیوں کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھا جائے گا۔ دریں اثنا، توانائی درآمد کرنے والے ملک ہندوستان نے بھی روسی خام تیل کی خریداری میں کمی کرنا شروع کر دی ہے۔
Published: undefined
ولادیمیر پوتن نے بھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے بوڈاپیسٹ میں ہونے والی ملاقات کی منسوخی پر ردعمل ظاہر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "اس ملاقات کو ہلکے میں لینا اور بغیر کسی نتیجے کے واپس جانا ہم دونوں کی غلطی ہو گی۔ یہ ملاقات امریکی جانب سے تجویز کی گئی تھی۔"پوتن نے تصدیق کی کہ ملاقات فی الحال ملتوی کر دی گئی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ ماسکو ہمیشہ بات چیت کے لیے تیار ہے۔
Published: undefined