خبریں

ریاستی اداروں پر’تنقید‘ کی پاداش میں صحافی رضوان رضی بھی گرفتار

پاکستان کے ایک سینیئر صحافی رضوان رضی کو ان کے گھر کے باہر  سے کچھ نا معلوم افراد اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد ’ایف آئی اے‘ نے رضوان کو حراست میں لیے جانے کا اعتراف کر لیا ہے۔

ریاستی اداروں پر’تنقید‘ کی پاداش،صحافی رضوان رضی بھی گرفتار
ریاستی اداروں پر’تنقید‘ کی پاداش،صحافی رضوان رضی بھی گرفتار 

کل سہ پہر کے بعد ایف آئی اے حکام کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو بتایا گیا کہ رضوان رضی کے خلاف دفاعی اور ریاستی اداروں کے خلاف ٹویٹس کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے اور انہیں اگلے چوبیس گھنٹوں میں قانون کے مطابق عدالت میں پیش کر دیا جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق رضوان رضی کے خلاف متنازعہ ٹویٹ کرنے کے الزام میں پہلے بھی کارروائی کی گئی تھی، جس پر انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ندامت کا اظہار بھی کیا تھا۔

Published: undefined

تازہ کارروائی میں رضوان رضی کے خلاف مقامی وقت کے مطابق شام چار بج کر 15 منٹ پر درج کی جانے والی نئی ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر لاہور کو ریاستی اداروں کی طرف سے شکایت ملی تھی۔

Published: undefined

اس سے پہلے رضوان رضی کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ان کے بیٹے اسامہ رضی نے ٹویٹ کی تھی کہ ان کے والد کو نامعلوم افراد گھر سے دھکے دیتے ہوئے کالے شیشوں والی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے تھے۔ دوسری ٹویٹ میں محلے کے چوکیدار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ رضوان رضی کو اپنے ساتھ لے جانے والوں نے کچھ دور جا کر انہیں رینجرز کی گاڑی میں منتقل کر دیا تھا۔

Published: undefined

رضوان رضی کے اس واقعے کے بعد جب میڈیا کے لوگ رضوان رضی کے گھر پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ گھر میں ان کی بیمار اہلیہ (جو ٹانگ کے فریکچر کی وجہ سے چل نہیں سکتیں) اور ان کا ایک بیٹا موجود ہیں۔ رضوان رضی کے گھر کے باہر سادہ کپڑوں میں لوگ بھی موجود تھے۔ ڈی ڈبلیو کے پوچھنے پر رضوان رضی کے بیٹے اسامہ نے بتایا کہ وہ ان لوگوں کو نہیں جانتے۔ ان کے خیال میں یہ لوگ "وہ" ہو سکتے ہیں۔ اسامہ نے مزید بتایا کہ جب ایک ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے انہوں نے رینجرز کا ذکر کیا تو سادہ پوش لوگوں میں سے ایک نے انہیں کہا کہ رینجرز کا ذکر نہیں کرنا۔

Published: undefined

اسامہ رضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے والد کو پچھلے کچھ عرصے سے کافی پریشان کیا جا رہا تھا۔ ایک مرتبہ نامعلوم افراد نے ان کی گاڑی کو ٹکر مار کر فون کیا اور کہا " ہن آرام ایں"(یعنی کیا تمہیں اب آرام آیا ہے یا نہیں)۔ اسامہ کے بقول رضی کو لے جانے والوں نے دروازے کو زور زور سے پیٹا اور غیر شائستہ زبان استعمال کی۔ انہوں نے وارنٹ دکھائے اور نہ ہی گرفتاری کی کوئی وجہ بیان کی۔

Published: undefined

رضوان رضی سینئر صحافی ہیں۔ دن ٹی وی کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس سے پہلے وہ دی نیوز، ڈان ٹی وی، دی ڈیلی نیشن، اور ڈیلی بزنس ریکارڈر سمیت کئی صحافتی اداروں کے ساتھ کام کرتے رہے ہیں۔ ان کا ریڈیو پروگرام دادا پوتا شو بھی عوامی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ٹویٹر اور سوشل میڈیا پر ان کے تبصروں کو دلچسپی سے پڑھتی رہی ہے۔

Published: undefined

رضوان رضی کے قریبی دوستوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بعض اوقات ان کی طرف سے حکومت کے خلاف سخت تنقیدی تبصرے سامنے آتے رہے ہیں۔ ان کے بقول کبھی کبھی وہ "گہرے پانیوں میں بھی اتر جاتے تھے" ۔ ان کے قریبی حلقوں کے بقول لگتا یوں ہے کہ دھرنا کیس کے حوالے سے سامنے آنے والے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں جو تبصرہ کیا تھا، وہی ان کی اس گرفتاری کی وجہ بنا ہے۔

Published: undefined

لاہور پریس کلب سے ہفتے کی صبح جاری کیے جانے والے ایک مذمتی بیان میں رضوان رضی کی بازیابی کا مطالبہ کیا گیا۔ ہفتے کی سہ پہر صحافتی تنظیموں نے اپنے مطالبات کے حق میں اور رضوان رضی کی گرفتاری کے خلاف پریس کلب کے باہر دھرنا دیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صحافی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ رضوان رضی کو جس طرح گرفتار کیا گیا ہے اس سے پاکستانی صحافیوں کو ایک پیغام دیا گیا ہے۔ ان کے بقول اب ملک میں صحافیوں کی جان اور مال بھی محفوظ نہیں۔

Published: undefined

صحافتی تنظیوں کے مطابق رضوان رضی کوئی دہشت گرد نہیں بلکہ ایک صحافی ہیں، ’’اگر ان کے خلاف کوئی الزام تھا تو بھی قانون کے مطابق ہی کارروائی کی جانی چاہیے تھی۔‘‘

Published: undefined

اس موقع پر صحافیوں نے "غنڈہ گردی کی سرکار نہیں چلے گی نہیں چلے گی" اور "آزادی صحافت تک جنگ رہے جنگ رہے گی" کے نعرے بھی لگائے۔

Published: undefined

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری کا کہنا تھا کہ ایسے حالات پچھلے 70 سال میں بھی صحافیوں نے نہیں دیکھے، جس طرح کی پریشان کن صورتحال کا آج کل پاکستان کی صحافت کو سامنا ہے۔ ان کے بقول یہ درست ہے کہ پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف نامناسب اظہار خیال کی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن دوسری طرف جس طریقے سے رضوان رضی کو گرفتار کیا گیا ہے اس کو بھی برداشت نہیں یا جاسکتا۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined